حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اب حضرت نے دونوں صاحبزادوں کو اپنے پاس بٹھایا اور باضابطہ دونوں کو بیعت فرمایا اس کے بعد آدھ گھنٹہ تک مختلف نصیحتیں فرماتے رہے، ان نصیحتوں کا خلاصہ یہ تھا :حضرت مرشد کے نصائح بیعت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی دنیاوی عزت یا دولت مل جائے گی، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ نفس اور باطن کی اصلاح ہوجائے اور وہ پاکیزہ و مہذب ہو جائے، کیوں کہ انسان کے نفس کے ساتھ ہزاروں روگ لگے ہوئے ہیں ، جیسے تکبر، حرص، حسد، کینہ، بغض، عداوت اور عناد وغیرہ دنیاوی فسادات بھی انہی سے پیدا ہوتے ہیں اور انسان کی آخرت بھی انہیں سے برباد ہوتی ہیں ۔ بیعت کا منشا یہ ہے کہ اخلاق ذمیمہ مغلوب ہوجائیں اور اخلاق فاضلہ غالب آجائیں ۔ جیسے انابت الی اللہ صبر و شکر، حیا و سخا، غیرت و حمیت اور توکل وغیرہ اور یہ چیزیں کثرت ذکر سے پیدا ہوتی ہیں ۔ جس قدر ذکر کیا جائے گا اخلاق فاضلہ اسی انداز سے قوی ہوں گے اور طاعت کی رغبت پیدا ہوگی اور اسی کے ساتھ معصیت سے نفرت بڑھتی جائے گی۔ اس تقریر کے بعد حضرت اقدسؒ نے صاحبزادوں کو اذکار بھی بتائے اور یہ دونوں بھائی ان اذکار کو پابندی سے بجا لاتے رہے، مگر اسکے بعد حضرت شیخ الہندؒ بہت کم دن تقریباً چھ ماہ بقید حیات رہے، کوئی چھ ماہ بعد آپؒ کی وفات ہوگئی، جس سے پورے ہندوستان میں صف ماتم بچھ گئی۔حضرت کشمیریؒ کی طرف رُجوع آپ کی وفات کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب ؒکے لیے سوال پیدا ہوا کہ اذکار کی تعلیم کس سے حاصل کریں ؟ چناں چہ آپ ؒنے اپنا یہ رشتہ اپنے استاذ محدث عصر حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ سے جوڑا، انھوں نے باضابطہ بیعت تو نہیں فرمایا، مگر تعلیم دیتے رہے۔ حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مجاز تھے۔ یہ سلسلہ بہت دنوں تک قائم رہا مگر جب حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ دیوبند چھوڑ کر ڈابھیل تشریف لے گئے۔ تو آپ کی خدمت میں حاضری کی نوبت کہاں آتی یا آتی تو بہت کم۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں در گہِ اشرف علیؒ کے فیض سے احمدؒ کا لال قاسمِ ثانی بنا وہ صاحبِ فضل و کمال بن گیا فخر الاماثل علم و فن کا آفتاب راہِ عرفان وتصوف کا درخشاں ما ہتاب