حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
طور پر یہ تعمیر بھی عالمی ہی انداز سے ابھری، جس کا علمی و عملی فیضان چند ہی سال میں ایشیاء سے آگے بڑھ کر افریقہ تک پھیل گیا اور آج یورپ و امریکہ تک بھی اس کی شعاعیں پہنچ چکی ہیں ۔ ان ساری آزادیوں کا خاموش رہنما بھی جامعہ دارالعلوم دیوبند تھا، جس کے فضلاء نے درس و تدریس کے ساتھ مختلف قومی سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں اتر کر تحریکات کے ذریعہ اس ملک میں آزادی کی روح پھونکی اور ۱۸۵۷ء ہی سے پھونکنی شروع کردی تھی، جبکہ ملک کے دوسرے حلقے سراسیم اور خاموش تھے یا خوشامد میں لگے ہوئے تھے، ان بزرگوں نے غاصب انگریز کا مقابلہ ابتداء ً آہنی تلوار سے کیا، پھر امن اور علم کی ناقابلِ شکست طاقت سے نبرد آزما ہوئے اور علمی رنگ سے یہ جذبات دوررس ثابت ہوئے اور آزادی کی لہریں دور دور تک پھیلیں جس سے اس جامعہ کے مؤسسین، فضلاء اور روشن ضمیر حلقوں کی سنہری تاریخ بھری ہوئی ہے۔جامعہ دارالعلوم کا بنیادی اور ہمہ گیر مقصد اس مرکزی جامعہ کی تعلیم کا اساسی مقصد کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم و ترویج اس کی علمی تمرین اور عمومی اشاعت و تبلیغ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعصب آمیز منافرتوں کا استیصال کرکے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے، تاریخ ا س پر شاہد ہے کہ بحیثیت مکتبِ فکر اس درسگاہ نے ہر اسلامی طبقہ کی طرف موانست و محبت کا ہاتھ بڑھایا اور بحیثیت جامعہ اس نے اپنا تعلیمی نصاب ایسا جامع رکھا کہ کوئی بھی اسلامی طبقہ اس سے باہر نہ رہ سکے، نصاب میں حفظ قرآن سے لے کر تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصولِ فقہ،کلام، بلاغت و بیان، حقائق و اسرار اور ان منقولات کے ساتھ علوم معقولہ منطق فلسفہ، ریاضی ہیئت، عوارض و قافیہ مناظرہ اور اختیاری فنون، مبادی سائنس معلومات عامہ، علم طب، صنعت و حرفت اور خوشخطی وغیرہ نصاب درس میں شامل کیں تاکہ کوئی بھی علمی، عملی، اخلاقی اور صنعتی طبقہ اس اجنبیت کو محسوس نہ کرے اور نہ صرف یہی بلکہ علم دین کے ہر بنیادی شعبے کو اس جامعہ میں ایک مستقل مدرسہ و کلیہ کی حیثیت و صورت دی گئی ہے جیسے مدرسۃ القرآن، مدرسۃ التجوید، مدرسۂ فارسی و ریاضی، کلیۃ الطب، کلیۃ الصنائع، کلیۃ اللغۃ العربیہ اور کلیۃ الفقہ والافتاء وغیرہ۔ اس طرح اس درسگاہ نے ایک مذہبی یونیورسٹی اور جامعہ کی صورت اختیار کرلی اور الحمد للہ ہر ہر فن کے متخصص تاحال اس سے ۱۶؍ہزار تیار ہوچکے ہیں اور جامعہ سال بہ سال مائل بہ ترقی ہے۔ ان ۱۶؍ہزار فضلاء کی تعداد میں مدرسین بھی ہیں اور مبلّغین بھی، خطباء بھی ہیں اور مقررین بھی، زعماء بھی ہیں اور مصلحانِ روحانی بھی، فضلاء دارالعلوم کی مذکورہ ۱۶؍ہزار تعداد بلاواسطہ ہے اور بالوسائط ان فضلاء کو بھی شمار کیا جائے جو فضلائے دیوبند کے تیار کردہ ہیں تویہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے