حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’ حکیم الاسلامؒ نہا یت متین، با وقار شخص اور تو اضع واخلا ق کا پیکر تھے، اسی کے سا تھ پر شکو ہ اور با وقار بھی‘‘ مولا نا حکیم عبد الرشید محمود گنگو ہیؒ تحریر فر ماتے ہیں : ’’بے شما ر محاسن و مکا رم اور منا قب ومحا مد کے سا تھ ان کی طبع لین ، علم وفضل سے معمو ر ، سیر ت ، معاملات و معاشرت میں ستھرا، بے عیب متو ازن کیر یکٹر ، جدال ومر اء سے تنفر ، غیر متصادم مزاج‘‘ حضر ت مو لا نا محمد تقی عثما نی فر ما تے ہیں : ’’حضرت حکیم الاسلامؒ کے پیکر میں معصومیت حسن اخلا ق اور علم و عمل کے جو نمو نے ان آنکھو ں نے دیکھے ہیں ، ان کے نقوش دل ودما غ سے محو نہیں ہو سکتے ‘‘مخصوص عادات عفو ودرگذر،حلم و بردباری،خوردنوازی ، خیر خواہی وہمدردی بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح معصوم اور شفیق،جوانوں میں بہترین ناصح،مصلح،خیر پسند،بوڑھوں میں تجربات ومشاہدات کی چلتی پھرتی کائنات، علماء میں علم و مطالعہ،حکمت و معرفت کا تاج محل،عوام میں ایک درد مند دینی شخصیت، جس کی زبان سے دین و ایمان کی تشریحات کے پھوٹتے ہوئے لاکھوں شفاف آبشار۔ مولانا سید ازہر شاہ قیصر صاحبؒ اپنے ایک طویل مضمون میں تحریر فرماتے ہیں : ’’حضرت مرحوم ایک بے حد مصروف زندگی کے انسان تھے، مزاجاً بھی نفاست پسند تھے کہ ان کے اوپر کی کئی پیڑھیاں خوش حال زمین داروں اور قصباتی رئیسوں کی پیڑھیاں تھیں ، اچھا لباس اور گھر کا اچھا ماحول پسند فرماتے تھے، مگر اسی نفاست پسندی کے ساتھ سخت کوش اور اوقات کے سخت پابند تھے، سفر میں ہر طرح کی صعوبت بآسانی برداشت کرتے تھے، سفر و حضر میں کھانا اگرمعمول کے مطابق نہیں ملتا تھا تو کبھی ناگواری کا اظہار نہیں فرماتے تھے، غریب سے غریب انسان کے دسترخوان پر بیٹھ کر انہیں دال بھات کھانے میں کوئی عذر نہ تھا، ان کی خندہ روئی، چہرہ کی مسکراہٹ، لب و لہجہ کی شیرینی، بڑی نرمی اور آہستگی کے ساتھ اصلاحی اقدامات کو آگے بڑھانے کا طریقہ ان کے ارد گرد کے لوگوں کو متاثر کرتا تھا، اصلاح کے لئے ان کا طریقہ سخت گیری کا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ماحول میں اپنے اوقات کے انضباط اور اپنے اخلاق کی مضبوطی سے تغیر پیدا فرماتے تھے، غریبوں کی مالی مدد فرماتے تھے، مگر بہت پوشیدہ طور پر اس طرح کہ لینے اور دینے والے ہاتھ کے سوا اور کسی کو پتہ نہ چلے، امانت کی ذمہ داری کو خوب سمجھتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں دس روپئے بھی کسی دوسرے شخص کو پہنچانے کے لئے دیتا تھا تو پوری کوشش فرماتے تھے کہ جسے امانت دینی ہے اس تک