حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بالکل سارے مفلس ہوتے جب بھی تعاون اور تمدن نہیں پیدا ہوتا اور سارے امیر بن جائیں ، جب بھی پیدا نہیں ہوتا، تمدن جب ہی پیدا ہوگا جب کچھ امیر ہوں ، کچھ غریب، امیرکی حاجت غریب اور غریب کی حاجت امیر کے خلاف ہے۔ اس لئے اگر مال کا فرق مٹانا ہے تو پھر عقلوں کا فرق مٹانا چاہئے۔ ایک بڑا ہوشیار ہے، اسے تو بیوقوف بنانے کی کوشش کریں اور جو بے وقوف ہے اسے عقل مند بنانے کی کوشش کریں ۔ یہ آپ کے قبضے میں نہیں ۔ فہموں میں اختلاف ہے، رنگوں میں اختلاف ہے۔کوئی کالا، کوئی گورا، زبانوں میں اختلاف ہے،کسی کی عربی، کسی کی انگریزی تو زبانوں ، صورتوں ، سیرتوں کا، اخلاق کا اور عقل کا اختلاف ہے، تو جب مختلف عقل سے کمائیں گے، اس میں بھی اختلاف ہوگا، کوئی زیادہ کمائے گا، کوئی کم کمائے گا، اب اگر آپ جبر کرکے ایک امیر سے کہیں کہ ساری کمائی دے۔ اگر تیرے پاس پانچ ہیں تو یہ سب کو بانٹ دے تاکہ سب برابرہوجائیں ۔اس کا نقصان یہ پہنچے گا کہ امیر کے دل میں مزدور سے بُعد پیدا ہوگا کہ محنت تو میری اورجبراً سب کچھ اس نے لے لیا۔ میں اور یہ برابر ہوگئے، فرق کیا رہا۔ میں رات دن محنت کروں اور اسے بے محنت دیدوں ۔ محنت کو اس کا جی نہ چاہے گا، فطرت کے خلاف ہے اور غریب یہ سمجھے گا جب بے محنت مجھے بھی حصہ مل رہا ہے تومجھے محنت اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔یہ معطل ہوجائے گا۔ غرض اگر آپ نے جبری طور پرمعاش کے اندر مساوات اور برابری قائم کی تو نہ امیر باقی رہے گا، نہ غریب نہ دونوں ایک دوسرے کے کام آسکیں گے۔ اس واسطے مساوات فطرت کے خلاف ہے۔ہاں توازن ہے،یعنی ایک دوسرے سے بالکل بعید نہ ہوں کہ ایک آسمان پر اور دوسرا زمین پر۔ حقوق رکھ دئیے کہ وہ نیچے اترے، کچھ یہ اوپر ہوجائے تاکہ محبتیں پیداہوں ۔‘‘(۷۴)عروج و زوال کا معیار عموماً عروج و زوال کے اسباب پر بحث ہوتی ہے،یہاں حکیم الاسلامؒ عروج و زوال کے گوشہ پر گفتگو فرما رہے ہیں ، یعنی عروج و زوال کا معیارکیا ہے؟ ’’ہر قوم کی زندگی کا ایک معیار اور نصب العین ہوتا ہے جس سے اس کی ترقی و تنزل اور فناء و بقاء پہچانی جاتی ہے، مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر غور کرنے کے لئے بھی یہی راستہ زیادہ سہل اور مختصر ہے کہ اس کے بنیادی نصب العین کو سامنے رکھ لیاجائے، گرد و پیش کے حالات ہنگامی حوادث یا شخصی آراء معیارکا درجہ