حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
دارالعلوم دیوبند میں پرسکون اور باوقار تعلیمی و انتظامی خدما ت کا دروازہ بند کردیا گیا تو حضرتؒ نے اپنے اکابر کے انداز میں دارالعلوم کے ان امتیازات و خصوصیات کو باقی رکھنے کے لئے جس سے دارالعلوم کی شہرت ہے دارالعلوم وقف دیوبند کے نام سے انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں کام شروع کیا تھا، قدم قدم پر مشکلات اور ہر ہر مرحلہ پر حوصلہ شکن واقعات کے باوجود یہ کارواں بدستور آگے بڑھتا رہا۔ چند سالوں کے مختصر عرصہ میں یہ بے برگ و بار پودہ اللہ کے فضل و کرم سے ایک شجر سایہ دار بن گیا اور جامع مسجد کی وسعتیں اس ادارہ کی ہمہ جہت رفعتوں کو سمیٹنے سے قاصر ہوگئیں ،طلبہ کی رہائش گاہیں منتشر ہونے کی بنا پر ذمہ دارانِ ادارہ اخلاق و تربیت کے وہ پہلو اجاگر نہیں کر پا رہے تھے جو کہ دینی درسگاہوں کی بنیادی خصوصیات ہیں ۔ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے مسلسل کرفیو نے اپنی عمارت کی ضرورت کو اور زیادہ باور کروایا، چنانچہ اللہ کے فضل و کرم اور مخیر حضرات کی مخلصانہ معاونت اور خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم و فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کی شب و روز محنت سے ایک وسیع قطعۂ اراضی شہر سے باہر مدرسہ کے لئے خرید لی گئی۔ ۲۴؍جون ۱۹۹۴ء بروز جمعہ فقیہ الامت حضرت مولانا محمود حسن گنگوہیؒ، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ، حضرت مولانا محمدنعیم صاحبؒ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند نے سینکڑوں علماء، طلبہ اور اپنے وقت کے صلحاء و مشائخ کی موجودگی میں اپنے دستِ مبارک سے عمارت کی پہلی اینٹ اس زمین پر رکھی، جس کا نام ہے ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘دارالعلوم وقف دیوبند اکابر کی نظرمیں ٭ مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب جلال آبادی خلیفہ ارشد حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا: ’’آپ دارالعلوم وقف کو معمولی درسگاہ نہ سمجھئے۔ جس سطح پر ہندوستان و پاکستان کی عظیم درسگاہوں کا عالمی تعارف ہے دارالعلوم وقف بھی اب انہی بلندیوں میں پرواز کر رہا ہے۔ میں غیر ملکی سفر سے آرہا ہوں ، ہر جگہ میں نے دارالعلوم وقف دیوبند کا ذکر خیر سنا۔ میں دارالعلوم وقف کو ہی اصل دارالعلوم دیوبند باور کرتا ہوں ۔ اصل چیز روایات ہیں ، عمارات نہیں ۔‘‘