حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
واقعی وقت ہی سبب وجوب بھی ہے توجن خطوں میں رات چھ چھ مہینے کی ہیں وہاں تو چھ ماہ میں صرف پانچ ہی نمازیں ہونی چاہئیں ؟ جواب : ’’اس کے لئے جواب صریح حدیث ہے جس میں اس کا اصول ارشاد فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بنص حدیث دجال پوری دنیا میں چالیس دن گھوم جائے گا اور اس کی مسافت کا پہلا ایک دن چالیس دن کے برابر ہوگا، اس پر صحابہؓ نے عرض کیا کہ رسول اللہؐ اس ایک دن میں نماز کس طرح اور کتنی پڑھی جائیں گی گویا سوال کا حاصل یہ تھا کہ اگر وقت سبب ہے تو چالیس دن کے برابر ایک دن پورے دن کی تین ہی نمازوں کی وسعت رکھے گا۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس دن میں نمازیں حساب سے پڑھی جائیں گی، یعنی چوبیس گھنٹہ کا ایک دن رات لگا کر پانچ نمازیں ان چوبیس گھنٹوں میں پڑھی جائیں گی، اس لئے نماز کا مسئلہ تو صاف ہوگیا۔ اب یہ بحث رہ جاتی ہے کہ وقت خاص سبب نہ رہا کیوں کہ عمل صلوٰۃ حساب پر دائر ہوگیا، سبب تو طلوع و غروب تھا نہ کہ مطلق وقت، سو اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ وقت کی حقیقت کیا ہے؟ سو ظاہر ہے کہ وقت کی حقیقت اور ذات یہ لیل و نہار نہیں ہیں بلکہ مسافت زمانی ہے، یہ لیل و نہار اور یہ روشنی و ظلمت وقت نہیں بلکہ وقت کے الوان ہیں جو اس پر عارض ہوتے ہیں ، وقت ہر صورت قائم رہتا ہے، اگر وقت کی ذات دن ہوتا تو دن ختم ہونے پر وقت محو ہوجاتا حالاں کہ رات آتی ہے تو اسے بھی وقت ہی کہتے ہیں ، اسی طرح اگر وقت کی ذات رات ہوتی تو رات گزرتے ہی وقت فنا ہوجاتا حالاں کہ رات گزر کر دن آتا ہے تو اسے بھی وقت ہی کہتے ہیں ۔ اس سے واضح ہے کہ رات اور دن کی یہ نورانی اور ظلمانی شکلیں خود وقت نہیں بلکہ وقت کے اوپر طاری ہونے والی صورتیں ہیں جو وقت کے عوارض کہلائیں گے۔ ان تمام عوارض میں قدر مشترک وقت ہے، پس وقت زمانی مسافت کا نام ہوا نہ کہ نور و ظلمت یا چاندنے اور اندھیری کا نام، جنت میں رات دن نہیں بلکہ یکسانی کے ساتھ یکساں ہی حال ہوگا اور اسے وقت ہی کہیں گے،قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہوگا جس پر رات آئے گی ہی نہیں مگر اسے بھی وقت ہی کہا جائے گا۔ ‘‘نزول مطر اور نزول ماء اس عنوان کے تحت حکیم الاسلامؒ نے ایک مشہور سائنسی مسلّمہ کا شریعت کی روشنی میں کس طرح جائزہ لیا ہے کہ سبب قریب کے ادراک سے سبب بعید کی نفی نہیں ہوا کرتی، باقی تفصیلات آپؒ ہی کی زبان سے سنئے: فرمایا : قرآن کریم نے دعویٰ کیا ہے و انزلنا من السماء ماء طھوراً اور ففتحنا ابواب