حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حضرت علا مہ محمد ابراہیم بلیاویؒ حکیم الا سلا م حضرت مو لا نا محمد طیب صاحبؒ فرماتے ہیں : آپؒ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس رہ چکے ہیں اور حضرت شیخ الہندؒ کے مخصوص تلامذہ میں سے تھے۔ معقولات میں خصوصی مہارت حاصل تھی اور درسِ حدیث میں ایک خاص امتیاز رکھتے تھے۔(۲۲) حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ فرماتے ہیں : حضرت مولانا بلیاویؒ دارالعلوم کے مایۂ ناز محقق عالم تھے۔ درسیات کی مشکل ترین کتابوں کے اعلیٰ ترین استاد تھے۔ اپنی حیات کا بہت بڑا حصہ علوم نقلیہ و عقلیہ کی تعلیم و تدریس میں صرف کیا اور پورے ساٹھ برس تک تدریس علوم دینیہ کی خدمت انجام دی۔ ذکاوت و قوتِ حافظہ اور حسنِ تعبیر میں خصوصاً معقول و منقول کے مشکلات کے حل کرنے میں یکتائے روزگار تھے۔ ہند و پاک کے ہزاروں علماء کے استاد تھے اور اپنے علمی کمالات اور جامعیت کے اعتبار سے قدماء سلف کی یادگار تھے۔ (۲۳)دو خواب خود حکیم الاسلام ؒکا بیان ہے کہ جس سال میں نے عربی شروع کی، اس سال ایک رات یہ خواب دیکھا کہ ہاپوڑسے جو ریلوے لائن مرادآباد جاتی ہے۔ اس ٹرین میں تمام اکابر موجود ہیں ، حضرت اقدس نانوتویؒ بھی سوار ہیں ۔ امروہہ سے پہلے گنگا کا پل آتا ہے، ریل گاڑی اس پر آکر ٹھہر گئی، رات کا وقت ہے۔ میں چھوٹا بچہ تھا کھیلتے ہوئے گاڑی سے نیچے اترگیا۔ میں نے دیکھا کہ گنگا کے اندر سینکڑوں دیواریں پانی میں پھیلی ہوئی ہیں ، کوئی ادھر جاری ہے اور کوئی اُدھر اور ان کے نیچے پانی بہہ رہا ہے۔ میں ان دیواروں پرٹہلتے ٹہلتے دور نکل گیا۔ اس وقت میری عمر کوئی دس سال یا گیارہ سال کی تھی۔ میزان منشعب شروع ہوچکی تھیں ۔ حضرت نانوتویؒ نے جب مجھے اپنے پاس نہیں پایا تو پوچھا طیب کہاں گیا؟ کہیں باہر تو نہیں نکل گیا۔ رات کا وقت ہے اور نیچے بڑا دریا ہے۔ اسے تلاش کرکے لائو بعض حضرات میری تلاش میں نکلے میرے پاس پہنچ کر کہنے لگے تم کہاں چلے آئے۔ حضرت خفا ہو رہے ہیں اور تم پانی میں دیواروں پر گھوم رہے ہو۔ میں ان کے ساتھ ریل کے ڈبہ میں آیا، دیکھا کہ پورا ڈبہ اکابر سے بھرا ہوا ہے۔ حضرتؒ بھی تشریف فرما ہیں اورآپ کے سامنے حضرت مولانا احمد حسن امروہیؒ (متوفی۱۳۳۰ھ) اور حضرت شیخ الہند دونوں مخصوص تلامذہ باادب بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے حضرت کے سامنے لایا گیا تو حضرت نے فرمایا تو کہاں گیا تھا۔ میں نے کہا