حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
روح بدل گئی، جذبات بدل گئے۔ پھر جہاں بھی یہ حضرات پہنچے وہاں بھی انقلاب برپا کردیا۔ قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دئیے۔ خیرتخت الٹ دینا تو یہ ہے کہ ملک فتح کرلیا۔ قیصر کا ملک فتح ہوگیا، رومی ماتحت بن گئے، کسریٰ کا ملک فتح ہوگیا، ایران پر حکومت قائم ہوگئی، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، مگر بڑی بات یہ ہے کہ جہاں بھی گئے ملک بدل دیا، تہذیب بدل دی، مذہب بدل دیا، زبان بدل دی، ساری چیزوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔ آج آپ ’’ممالکِ عربیہ‘‘ کہتے ہیں مصر کو، شام و عراق کو حالاں کہ یہ عرب ممالک نہیں تھے۔ عراق جو ہے وہ خراسان کا ملک تھا۔ اس میں اور زبان بولی جاتی تھی، عربی نہیں بولی جاتی تھی۔ مصر قبطیوں کا ملک تھا اس میں قبطی زبان بولی جاتی تھی، یہ صحابہؓ کی شان ہے کہ عراق میں پہنچے، مذہب بھی بدل دیا، زبان بھی بدل دی، مصر میں پہنچے مذہب بھی بدل دیا اور زبان عربی ہوگئی، تمدن تک بدل دیا، تہذیب تک بدل دی، تو یہ تبدیلی اور انقلاب کی شان صحابہؓ میں کہاں سے آئی؟ اس قرآن کے ذریعہ سے آئی۔ صحابہؓ اسی کو لے کر کھڑے ہوئے، اسی کو دستور العمل بنایا تو عالم کی کایا پلٹ دی۔‘‘ (۵۳)سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے؟ سیرتِ نبویؐکی بالکل صحیح تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ذیل میں حکیم الاسلامؒ کی یہ وضاحت ملاحظہ فرمائیے: ’’۱۲؍ربیع الاوّل کو ایک ذاتِ مقدس کو اللہ تعالیٰ نے نمایاں کیا کہ اس سے زیادہ حسین و جمیل ذات نہ پہلے عالم میں پیدا ہوئی تھی نہ بعدمیں پیدا ہوگی۔ ایک کامل نقشہ انسانیت کا ایسا پیش کیا گیا کہ اس سے زیادہ حسین و جمیل نقشہ دوسرا نہیں ہے اور یہ تو قاعدہ کی بات ہے کہ جیسا سانچہ ہوتا ہے ویسی ہی اس میں چیز ڈھلی ہوتی ہے، سانچہ مکمل ہے تو جو چیز ڈھلے گی وہ بھی مکمل ہوگی، سانچہ اگر بے پیندہ کا ہے تو جو اس میں ڈھالوگے وہ بھی بے پیندہ کا ہوگا تو جب سراپا قد و قامت اور نقشہ، قالب مکمل تھا تو حقیقت بھی تو اتنی ہی مکمل آنی چاہئے تھی، اس لئے جیسا جمال بے نظیر تھا، ویسا ہی کمال جو اس میں بھرا ہوا تھا، وہ بھی بے نظیر تھا۔ اس کمال ہی کا نام سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اسی کمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل پیدا ہوئے تو ایک ہے شمائل، شمائل کہتے ہیں ظاہری خصائل کو اور خصائل کہتے ہیں باطنی خصلتوں کو، یعنی اخلاق کو، عادات کو، کمالات کو، توجب شمائل اعلیٰ ہوں گے تو خصائل بھی اعلیٰ ہوں گے، نقشہ بے نظیر تھا تو جو چیز ڈھلی ہوئی تھی وہ بھی بے نظیر تھی، تو جیسے صورت اعلیٰ تھی، سیرت بھی اعلیٰ تھی، اس واسطے میں نے عرض کیا صورت خود مقصود نہیں ہوتی، صورت سیرت کے دکھلانے کا آئینہ ہوتی ہے، صورت پہچاننے کا ذریعہ ہوتی ہے، کسی شخص کو دیکھ کر جب آپ پہچانتے ہیں تو صورت دیکھ کر