حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
وسیع تھی، اس کے معانی پر پورا عبور رکھتے تھے اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے ـبڑی فصیح و بلیغ زبان عطا کی تھی اور اپنی بات دوسروں کے ذہن نشین کر دینے پر پوری قدرت حاصل تھی۔‘‘فن سپہ گری علم و فن میں مہارت کے ساتھ حضرت والا فن سپہ گری کا بھی ذوق رکھتے ہیں ۔ چناں چہ فرماتے ہیں یہ فن میں نے اور سعید بھائی گنگوہیؒ نے امیرشاہ خاں صاحب خورجویؒ سے حاصل کیا۔ جو حضرت نانوتویؒ کے متوسلین میں سے تھے اور نہایت متقی اور پار سابزرگوں میں سے تھے یہ لاٹھی اور بنوٹ وغیرہ ہم لوگوں کو سکھایا کرتے تھے اور اس سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔علمی مناسبت علمی مناسبت طالب علمی کے زمانہ سے حاصل رہی۔ تقریر و تحریر دونوں کا ذوق تھا۔ زیادہ محنت سے طبیعت گھبراتی نہیں تھی اور علم کی ایک دُھن تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خداداد ذہانت، علمی فراست، علمی ذوق، وسعت مطالعہ اور کتب بینی سے دلچسپی شروع سے تھی۔ قوت حافظہ بھی قابل رشک عطا ہوا تھا، پھرجن اکابر اساتذہ سے جو فن حاصل کیا تھا وہ اس فن میں کامل تھے۔ اسی کے ساتھ جو ماحول آپ کو میسر تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی مسائل و حقائق کو دلائل عقلیہ سے اس طرح عام فہم بناکر بیان کرتے تھے کہ ہر دل و دماغ بڑی خوشی سے قبول کر لیتا اور بے حد خوشی محسوس کرتا تھا۔ جس مسئلہ پر گفتگو کرتے تھے۔ اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے پاتاتھا۔دیگر علماء سے اجازت حدیث دارالعلوم دیوبند سے تو آپؒ نے فراغت حاصل کی ہی تھی، دوسرے مشاہیر علماء وقت سے بھی آپؒ کو اجازت حدیث حاصل ہے۔ مثلاً حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ (م۱۳۴۶ھ) نے آپ کو بطور خود سہارنپور بلایا اور صحاح ستہ کی اوائل کی حدیثیں پڑھواکرسنیں اور اجازت عطا فرمائی اور اپنے دست خاص سے خصوصی سند حدیث لکھوا کر مرحمت فرمائی۔ اسی طرح حضرت مولانا عبد اللہ انبیٹھوی یعنی آپ کے حقیقی بڑے پھوپھا اور آپ کے والد ماجد نے بھی اپنی طرف سے خصوصی اجازت حدیث عطا فرمائی۔ نسبت قاسمی خداداد متانت و سنجیدگی اور علمی ذوق کی وجہ سے اس وقت کے تمام قابل ذکر علماء اور اہل اللہ