حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
میں منہاج نبوت نے اصولاً یاجزء ً ا وضع کئے ہیں اور ان پر منطبق کئے ہیں ،پس مفکر، دانشور یا مبصر، مفتی کا کام حادثہ اورمسئلہ تبدیل کرنا نہیں بلکہ دونوں میں تطبیق دے دینا ہے۔ نہ حالات سے صرف نظر کرنا ہے نہ مسائل سے قطع نظر کرلینا ہے، اس لئے شریعت نے تمدنی اور معاشرتی احوال کی حد تک زیادہ تر قواعد کلیہ ہی سامنے رکھے ہیں ۔ نئی جزئی صورتوں کی تشخیص نہیں کی ہے کہ وہ ہر دور میں نئے نئے رنگ میں نمایاں ہوتی رہتی ہے۔(۷۳)عبادتِ مالی سے مقصود امیر و غریب میں توازن قائم کرنا ہے مالی عبادت جیسے زکوٰۃ، صدقہ وغیرہ کے شرعی مصالح کیا ہیں ؟ اس پر حکیم الاسلامؒ کی یہ وضاحت ملاحظہ کیجئے: ’’مقصد یہ ہے کہ امیر اور غریب کے اندر قرب پیدا ہو۔ یہ نہ ہو کہ امیر آسمان کے اوپر ہو اور غریب زمین کے اوپر ہو، کچھ وہ نیچے اترے، کچھ غریب کو اوپر چڑھادیا تاکہ توازن پیدا ہوجائے۔ یہ تو شریعت نے پسند نہیں کیا کہ مساوات کرو کہ بالکل ایک ہی جیسی روٹی، لباس اور ایک ہی سب کی آمدنی ہو اور جبر کرکے امیر سے ساری آمدنی لے لی جائے تاکہ غریبوں میں بانٹ دی جائے اس لئے کہ اس میں امیر اور غریب کو مضرت پہنچے گی۔ اول تو یہ فطرت کے خلاف ہے اس لئے کہ ایک آدمی میں اتنی عقل اور ہوشیاری ہے کہ وہ سو روپئے لے جاتا ہے تو ہزار روپئے کماکے لاتا ہے اور ایک اتنا احمق ہے کہ ہزار روپئے لے جاتا ہے وہ بھی کھوکے آتا ہے۔ یہ دونوں کیسے برابر ہوجائیں گے؟ جومحنت کرے گا، اس کا حق زیادہ ہوگا، جو نہیں کرے گا اس کا حق کم ہوگا۔ شریعت یہ نہیں کہتی کہ دونوں برابر ہوگئے بلکہ صراحۃً فرمایا: نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں ، ہم نے اپنے بندوں پر معاش تقسیم کردی ہے اور ایک کو دوسرے سے بڑھا دیا ہے۔ کوئی اونچا، کوئی نیچا، کوئی امیر، کوئی غریب تاکہ ایک دوسرے کے کام آنے والا ہو اور تمدن پیدا ہو۔ اگر سارے ایک جیسے ہوتے تو آپ صدقہ کیسے دیتے؟ جسے دیتے وہ کہتا، میرے گھر میں بہت سا پڑا ہوا ہے، مجھے ضرورت نہیں تو تعاون اور ایک دوسرے کی خدمت گذاری ختم ہوجاتی اور اگر سارے کے سارے ہی بھک منگے ہوتے تو نہ آپ اسے دیتے، نہ وہ آپ کو دیتا۔ وہ آپ سے بے تعلق، آپ اس سے بے تعلق،