حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
قدیم روایت فرمایا : ’’ایک بات آپ حضرات سے اور کہہ دوں کہ جس طرح آپ علم حاصل کرنے کے لئے محنت کرتے ہیں ، مجاہدہ کرتے ہیں ، تکلیفیں اٹھاتے ہیں ، مشقتیں برداشت کرتے ہیں ، اسی طرح آپ کو عملی اخلاقی قوت پیدا کرنے کے لئے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہے جب تک آپ کی عملی اور اخلاقی قوت مضبوط نہیں ہوگی، علم کام نہیں دے گا، ایک عالم میں اگر کبر ہو، حسد ہو، بغض ہو،کینہ ہو، طمع ہو، حرص ہو تو وہ خود بھی ذلیل ہوگا اور علم کو بھی ذلیل کرے گا۔‘‘ اسلاف جب علم سیکھ لیتے تھے تو اس کے بعد مستقل طور پر عمل بھی سیکھتے تھے خود دارالعلوم پر نصف صدی ایسی گذری تاوقتیکہ شیخ کامل کی اجازت نہ ہوتی، دارالعلوم اپنی علمی سند نہ دیتا گویا کہ علم و عمل کی تکمیل کا نام سند تھا۔ میں نے جو آپ کے سامنے حدیث پڑھی تھی کہ منھومان مالا یشبعان منھوم فی العلم ومنھوم فی الدنیا یعنی نہ تو کوئی طالب دنیا کبھی سیر اور نہ طالب علم سیر ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی طالب مال کو کسی حد پر قناعت ہوتی ہے اور نہ طالب علم کو بلکہ حرص بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس سو روپئے ہیں تو وہ دوسو کی خواہش میں لگا ہوا ہے اور اگر دوسو ہیں تو چار سو کی خواہش میں ، اسی طرح کسی عالم کو اگر سو مسئلے معلوم ہوئے تو دو سو معلوم کرنے کی کوشش میں رہتا اور اگر دو سو معلوم ہوجاتے ہیں تو چار سو معلوم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ جب علم کی طلب اس درجہ تک پہنچ جائے گی تو علم خود ہی عمل کو دعوت دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء جس قدر علم بڑھتا جائے گا، خشیت بڑھتی جائے گی اور جب خشیت بڑھے گی تو آپ یقینا طاعت کی جانب مائل ہوں گے، اس لئے کہ علم کے لوازم میں عمل ہے اور ایسے ہی زیادت فی العلم کے لوازم میں سے ہے زیادت فی العمل۔‘‘احساس مسئولیت فرمایا : ’’ابھی تو آپ حضرات کا طالب علمی کا زمانہ ہے، ابھی آپ دوسروں کی نگرانی میں رہتے ہیں اور یہاں رہ کر آپ صالح بن رہے ہیں مگر یہاں سے جانے کے بعد آپ خود نگراں بنیں گے اور آپ کو مصلح بننا ہوگا، پھر آپ کے سامنے مختلف قسم کے مسائل آئیں گے اور اس کے مطابق آپ کو تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی، آپ کے سامنے ملک و قوم کے حالات ہوں گے اورآپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت قوم میں