حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
معرفت الٰہی کے خزانے بھی اپنی آغوش میں رکھتا ہے اور ما دیت والحاد کی اس گر م با زاری کے زما نے میں حق و صداقت کا روشن مینا رہ اور انجمن حق کی شمع فروزاں ہے۔ اعلیٰ حضرت!اس تشریف آوری کے مو قع پر آپ ہندوستان میں بہت سی قدیم عمارتیں اور تا ریخی مقامات ملا حظہ فر ما ئیں گے اور یہا ں کی اونچی شخصیتوں سے مل کر یقینا مسرور ہو ں گے مگر یہ سب ما دی اور دینو ی تر قی کے مظا ہر ہیں ۔ لیکن یہ دارالعلوم تما م اسلا می دنیا میں اپنی رو حا نی اور اخلا قی عظمت کے لحا ظ سے ایک بلند و اعلی ٰ مقام رکھتا ہے اور بلا مبا لغہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ رشدو ہدا یت کا آفتاب اور صرا ط مستقیم و دین قویم کا مظہر ہے’’ذلک فضل اللّٰہ یو تیہ من یشا ء و اللّٰہ ذو الفضل العظیم۔‘‘ اعلیٰ حضرت!ہر چند یہ ادارہ دنیو ی طمطراق اور تمد نی شان و شکو ہ سے تہی دامن ہے مگر اس کا ذرہ ذرہ حق و صداقت کی تا با نی اور علم و معر فت کی در خشانی کا مظہر ہے اور اس ادارے کی ما ضی و حا ل کی تا ریخ اس امر پر شا ہد ہے کہ یہا ں کے اکا بر و علما ء ہمیشہ علم و معرفت کے عَلَمْ بر دار رہے ہیں اور سو ائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ٔ حسنہ کے کو ئی چیز ان کے لئے نمو نہ ٔ عمل نہیں رہا۔ جلسۂ خیر مقد م میں حضرت مہتمم صا حبؒ دارالعلوم نے اعلیٰ حضرت کو سپاس نا مہ پیش کیا ، آخر میں اعلی حضرت پر جو ش نعرہ ہا ئے تکبیر کے درمیان تقریر کے لئے کھڑے ہو ئے، اعلیٰ حضرت نے فا رسی میں تقریر فرمائی جس میں دارالعلوم کی علمی و عر فا نی خد ما ت کا اعتراف اور دارالعلوم کو خراج تحسین پیش کر تے ہو ئے اپنے شا ندار استقبال پر اظہا ر مسرت کیا ۔شعبۂ تنظیم فضلا ء کا قیا م ۱۳۷۸ھ میں حضرت مہتمم صاحبؒ کی تجویز سے شعبۂ تنظیم فضلاء دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا۔ سبھی اکابر کی ایک دیرینہ آرزو تھی جو حضرت مہتمم صاحبؒ کے ذریعے پوری ہوئی۔ ۱۳۷۹ھ میں حضرت مہتمم صاحبؒ نے افریقہ کا سفر اختیار فرمایا اس سفر سے دارالعلوم کو مادّی فائدہ بھی کافی پہنچا اور تقریباً سوا لاکھ روپیہ دارالعلوم کو بلاطلب و تحریک حاصل ہوگئے۔ اسی سال دائرۃ المعارف عثمانیہ حیدرآباد کی جوبلی میں دارالعلوم کے نمائندہ کی حیثیت سے خطیب الا سلا م مولانا محمد سالم صاحب قا سمی مد ظلہ مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے شرکت فر ما ئی اور حضرت مہتمم صاحبؒ کا پیغام اور ایک علمی مقالہ جوبلی کے