حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تاسیسِ دارالعلوم وقف دیوبند سقوط دارالعلوم کے بعد حکیم الاسلامؒ کے ساتھ طلبہ کی ایک بڑی تعداد اور قدیم ترین ملازمین جنہوں نے جوانی کے بہترین لمحات، جسمانی قوتیں اور ذہنی صلاحیتیں دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں صرف کی تھیں دارالعلوم سے باہر آگئیں ۔ قدرت کو منظور تھا کہ دیوبند کی قدیم مرکزی جامع مسجد سے بھی قاسمیت کا وہ علمی فیضان جاری ہو جس کی حفاظت و صیانت کے لئے حکیم الاسلامؒ جاں گسل حوادث سے گذرے۔ حکیم الاسلامؒ کی ایماء پر ۱۹۸۳ء میں از اول تا دورہ حدیث شریف کی باضابطہ تعلیم کا آغاز ہوا اور ملازمین جامع مسجد کے حجروں میں بیٹھ کر دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف ہوئے۔ خدائے علیم و خبیر ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ مرحلہ کتنا کٹھن اور مشکلات سے پرتھا۔ قدم قدم پر مسائل، وسائل ناپید، نہ درس گاہیں ، نہ کتابیں ، نہ چٹائیاں ،نہ تپائیاں ،دفاتر کے لئے کاغذ، نہ قلم، کوئی بھی چیز میسر نہ تھی۔ خطیب الاسلام حضرت مولا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم، فخر المحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب دیوبندیؒ جیسے فخر روزگار اساتذہ جن کی تدریس دارالعلوم دیوبند کا طرۂ امتیاز، علمی کمالات ضرب المثل اور شہرت و نیک نامی ہندوستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں تھی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بیشتر نامور علماء مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور ملی تنظیموں کے سربراہان کو ان کے شرف تلمذ پر نازاور ان کی شخصیات پر ہمیشہ فخررہا۔ دارالعلوم دیوبند کے ایسے قدیم الخدمت، مخلص اور تجربہ کار اساتذہ بے سرو سامانی کے عالم میں دیوبند کی مرکزی جامع مسجد کے کھلے فرش پر بیٹھ کر خلوص و للہیت اور شوق و ذوق سے درس دیتے جو دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کے جم غفیر کے درمیان ان کی پہچان بنا ہوا تھا۔ان حضرات کے دل و دماغ میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد کے درمیان علم و حکمت کے موتی بکھیرنے والے چند لٹے پٹے غریب الوطن طلبہ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ، جنہیں نہ ایک وقت کا کھانا نصیب، نہ سر چھپانے کی