حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جس کی وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب حجت بیانی کی یہ سہ گانہ قسمیں محض مخاطبوں کے فہم کے تفاوت اور ان کی سمجھ کے مختلف درجات کی وجہ سے بیان فرمائی ہیں ، تو ان کی غرض و غایت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ مخاطب کو انکار کی گنجائش نہ رہے اور بشرطِ عقل و انصاف وہ کلمۂ حق کو قبول کرنے پر اپنے دلی داعیہ سے مجبور ہو جائے۔ اگر یہ غرض نہ ہوتی تو استدلال اور حجت بیانی اور ان کے مختلف طریقوں کی حاجت ہی نہ تھی ، محض احکام کا بیان کر دیا جانا کافی تھا، خواہ کوئی سنے یا نہ سنے اور خواہ قبولیت کی اس میں گنجائش اور استعداد ہو یا نہ ہو، گویا داعی الی اللہ صرف اس کا مصداق ہوتا ہے کہ: کس بشنود یا نشنود من گفتگوئے می کنم او رجب کہ مخاطبوں کی اس تقسیم سے قدرتاً مخاطب کا یہ وصف سامنے آیا تو یہ حسنِ سماع بطور اقتضاء کے اسی آیت سے ثابت ہوگیا۔اَب غور کرو تو سماعِ قبول کے اثبات سے اس کی ضد جسے سوء ِ سماع یا حق سے انحراف کہنا چاہئے جو قلب میں دعوت کو راسخ نہ ہونے دے مع اپنی تمام اقسام کے اس آیت سے خود بخود منفی ہو جاتی ہے۔ یامثلاً قلب کا لہو و لعب اور لا ابالی پن، قلت ِ فکر یا قلبی اعراض اور بے توجہی یا زبان کی بکواس، کثرتِ سوال اور فضول استفسارات یا دور ازکار احتمالات و شبہات نکالنا جو کلام کو رَلا نے کے لئے کئے جائیں اور جن کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ مخاطب کے دل میں داعی کی بات جمنے نہ دیں اور اس پر کسی حیثیت سے بھی متکلم کا اثر نہ ہونے دیں ،یہ سب اسی آیت ِ دعوت سے مردود ہو جاتے ہیں ، کیوں کہ قاعدہ ہے کہ الامر بالشئ یقتضی النہی عن ضدہٖ (کسی شئے کا حکم دینا اس کی ضد کی ممانعت کی دلیل ہوتا ہے) پس جب حسنِ قبول آیت کے اقتضاء سے ضروری اور مامور بہ ٹھہرا تو اس کی ضد سوء ِ قبول مع اپنی اقسامِ مذکورہ کے خود ہی ممنوع ثابت ہوئی ۔سامع کے ان قبیح اوصاف پر قرآن حکیم نے جدا جدا بھی روشنی ڈالی ہے۔اعراض مثلاً قلبی اعراض اور بے توجہی پر ملامت کرتے ہوئے ہٹ دھرموں اور متعصّبوں کی شان بتائی کہ: وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَo ترجمہ: اور اگر وہ ان کو سنائیں گے بھی تب بھی وہ پشت پھیر کر چلے جائیں گے۔ اس حال میں کہ وہ اعراض کرنے والے ہوں گے۔ دوسری جگہ فرمایا : بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَo