حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہے۔ حافظ محمد ضامین صاحب مرحوم کی شہادت، حضرت حاجی امداد اللہ ؒ کی ہجرت، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی قید و بند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے وارنٹ گرفتاری اور برداشت مصائب، مولانا منصور انصاریؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی جلاوطنی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی مالٹا میں نظربندی، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی اسارت مالٹا کراچی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب مرحوم سابق صدر جمعیۃ علماء ہند اور مولانا احمد سعیدؒ کی اسارت ملتان، مولانا حفظ الرحمن ناظمِ اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند کی طویل اسارت اور اس دور کے سینکڑوں سے متجاوز فضلاء دارالعلوم دیوبند کی قیدوبند گوناگوں مصائب اور قربانیوں کے عظیم واقعات کو تاریخ نظر انداز نہیں کرسکتی جودارالعلوم کے بانیوں اور اس کے اساتذہ ہی کی تعلیم و تربیت کے روشن نشانات ہیں ۔دارالعلوم دیوبند کے مقاصد اور اس کی خصوصیات جناب والا! آپ ایک فاضل تاریخ داں اور سیاسی مفکر کی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں کہ ۱۸۵۷ء کی تمام ناکامیوں اور ہولناک مصیبتوں کے بعد بھی محبان وطن اور فدایانِ ملک و ملّت کے حوصلے پست نہیں ہوئے، ان ناامیدیوں میں بھی امید کی کرن سامنے تھی اور کشت زار غور و فکر میں ایک تعمیری شعور جنم لے رہا تھا۔ دارالعلوم کے بانی ان ہی باہمت بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے چٹان بن کر ا س طوفان کا مقابلہ کیا اور جیسے ہی یہ سیلاب پایاب ہوا انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر طے کیا کہ ملک کی ناکامیوں کا رخ بدلنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک روح کی حفاظت، دوسرے تعمیری رجحان اس لئے کہ جو قوم روحانیت پر ایمان رکھتی ہے اور اپنی روح بیدار رکھ سکتی ہے وہ خدا کی مدد سے اپنے حالات میں ایک تعمیری انقلاب لاسکتی ہے۔ یہ دارالعلوم اسی تعمیری انقلاب کا نمونہ ہے۔ اس عظیم ادارے کی بنیاد جن اصولوں پر قائم ہے وہ مختصر سے مختصر الفاظ میں یہ ہیں : (۱)ایک قوم کے لئے سب سے پہلی چیز خدا پر بھروسہ (توکل علی اللہ) ہے، ہر بڑے نصب العین کے لئے یہی ایک بڑا سرمایہ ہے۔ دارالعلوم کا پہلا بجٹ نوے سال پہلے چار سو روپئے پر مشتمل تھا، آج ساڑھے پانچ لاکھ ہے، یہ سب اسی توکل علی اللہ کا نتیجہ ہے۔ (۲)تعلیم اور تعمیر جیسے نصب العین کے لئے اجتماعی جدوجہد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، عوام کی مشترک محنت سے جو کام کیا جائے گا اس میں خیرو برکت بھی ہوگی اور قبول عام بھی حاصل ہوگا، یہ دارالعلوم اجتماعی جدوجہد کا پہلا نمونہ ہے۔