حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بہترین حقیقت ڈال دیں ۔ درحقیقت ان کے قبضۂ قدرت کی بات ہے لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ جیسا پیکر ہوگا ویسی حقیقت ظاہر ہوگی۔ تو یہ حق تعالیٰ کو قدرت ہے کہ اچھی صورت میں بری حقیقت اور بری صورت میں اچھی حقیقت ڈال دیں مگر سنت اللہ یہی ہے کہ اچھی صورتیں ہوں گی تو اچھی حقیقتیں ہوں گی اور بری صورت ہوگی تو حقیقت بھی اسی درجے کی ہوگی۔ اس لئے حدیث میں فرمایا گیا: ’’التمسوا الخیر فی حسان الوجوہ‘‘ اچھی حقیقتوں کو پاکیزہ چہروں میں تلاش کرو، اس قسم کی تکوینی چیزیں اکثر ہی ہوتی ہیں ، کلیہ نہیں ہوتیں ، کوئی نہ کوئی جز ان سے نکلتا رہتا ہے‘‘۔ (۵۹)بعثتِ نبیؐ امی کا پسِ منظر نہایت سادہ اور سہل انداز بھی حکیم الاسلامؒ کی زبان سے کتنا پرکشش بن جاتا ہے، اس کی ایک مثال دیکھئے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ تمام عالم کی طرف مبعوث ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جامع العلوم بنایا گیا۔ ہر ذہنیت آپ کی شریعت میں موجود ہے کہ اسی ذہن کے مطابق تربیت دی جائے۔ اگر حضرت آدم علیہ السلام کو علمِ اسماء دیا گیا، فرمایا گیا: وَ عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ تو حدیث میں ہے کہ عُلِّمْتُ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا کَمَا عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا۔ ’’آدم علیہ السلام کو سب نام سکھلادئیے گئے تو وہی علم مجھے بھی عطا کیا گیا۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستقل تعبیر خواب کا علم تھا، تعبیر خواب کے اصول بیان کرنا کہ جس سے فن بن جائے اور ہزاروں معبِّر پیدا ہوجائیں تو انبیاء علیہم السلام میں حضرت یوسف علیہ السلام کو تعبیر خواب کا علم دیاگیا تھا لیکن حضور علیہ السلام کو تعبیر خواب کے اصول بتلائے گئے جو قرآن و حدیث میں بکھرے ہوئے ہیں جس کے ذریعے سے یہ ایک فن بنا اور اس فن کے بڑے بڑے امام اس امت کے اندر پیدا ہوئے جنہوں نے انہی اصول و قواعد کے مطابق تعبیرات دیں ، تو جزئی علم نہیں دیا گیا بلکہ کلی طور پر علم دیا گیا۔ غرض حضرت یوسف علیہ السلام کو تعبیر خواب کا حکم دیا گیا یعنی جزئی خواب جو آتے تو وہ ان کی تعبیر بتلادیتے تھے مگر وہ اصول و قواعد جن سے تعبیر دینے کا طریقہ معلوم ہوجائے یہ فنی صورت نہیں تھی، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قواعد منکشف ہوگئے جن کو کتابوں میں نقل کیاگیا اور فنِ مستقل بن گیا۔