حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بنانے والے نہیں ہیں ، مشائخ عقیدہ قائم کرنے والے نہیں ہیں ۔ مشائخ خود پابند ہیں ان عقیدوں کے جو اللہ کے رسولؐ نے بتلائے ہیں ، علماء خود ان عقائد کے پابند ہیں جو اللہ کے رسول نے ارشاد فرمائے۔ عقیدہ خدا کی خبر سے بنتا ہے،علماء کے کہنے سے عقیدہ نہیں بنتا، لیکن محبت میں ان کے ہر قول و فعل کو آدمی عقیدہ بنا لے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ شریعت اور دین کے اندر خلل پیدا ہوگا۔ اور کبھی غلو عداوت سے عقیدہ بگڑتا ہے کہ کسی جماعت یا کسی شخص سے عداوت پیدا ہوجائے، ضد یا عناد پیدا ہوجائے۔ اچھی سے اچھی بات بھی کہیں گے تو یہ غلط کہے گا۔ اس لئے کہ بدگمانی پہلے قائم کرلی۔ وہ صحیح عقیدہ بھی بیان کریں گے غلط کہے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ غلط عقیدے پر قائم ہوجائے گا اور صحیح عقیدے سے محروم رہے گا تو عقائد کو بگاڑنے والی کبھی عقل ہوتی ہے کہ غیبی امور میں دخل دے۔‘‘(۶۸)اسلام کے پیش کردہ راستے یہاں مقاصدِ شرع کا ایک اچھا اور اچھوتا موضوع زیر بحث ہے۔ ’’اسلام نے دنیا کے سامنے دو راستے پیش کئے ہیں ۔ گویا اسلام دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک اقترابات، دوسرے ارتفاتات۔ اقترابات کا مطلب یہ ہے کہ وہ راستے جن سے آدمی اللہ تعالیٰ کا قرب اور نزدیکی پیداکر سکے اور اس کی نزدیکی کی یہ صورت نہیں ہے کہ جیسے ہم آپ کے نزدیک ہوجائیں کہ گز بھرکی بجائے آدھ گز یا آدھ گز کے بجائے بالشت بھر کا فاصلہ رہ جائے۔ اسے نزدیک کہیں گے مگر یہ نزدیک ہونا جسمانی ہے اور اللہ جسم نہیں ہے کہ اس کے نزدیک ہونے کا یہ مطلب ہو کہ ہم دو چار گز سرک جائیں یا دس پانچ میل آگے پہنچ جائیں ۔ اس کی نزدیکی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے مناسبت اور مضبوط تعلق پیدا کریں ۔ اس کے اخلاق سے مخلق ہوں ۔ اس کے کمالات سے باکمال بنیں ، خدائی اوصاف ہمارے اندر نفوذ کریں تاکہ ہمیں خلافت اور نیابت خداوندی کا مقام حاصل ہو۔ اس چیز کا نام اسلام میں اقترابات یعنی قرب خداوندی پیدا کرنے کا ذریعہ کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے عبادات، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ رکھی گئی ہیں ۔ دوسری چیز ارتفاتات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باہمی میل جول، لطف و مدارات، تمدن و تعاون اور مدنیت و شہریت کے اصول و طریقے ہمارے سامنے ہوں کہ کس طرح سے ہم دنیامیں زندگی گزاریں ۔ دنیا میں جیسے مساجد بنانے کی ضرورت ہوتی ہے،گھر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ جیسے گھر بنانے کی ضرورت