حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سو جوں ہی دعوتِ اجلاس پہنچی وہیں لبیک سب کے برزبان تھی ہوا میں شوق سے اُڑ اُڑ کے آئے زمین کیا؟ تھے فضائوں پر بھی چھائے ائربس اور ہوائی کشتیاں تک سکوٹر اور گھوڑا گاڑیاں تک بسیں ، ریلیں ، مکانات اُن سے بھرپور جگہ تل تک کے رکھنے کی تھی کافور اُمنگوں سے بھرے تھے سب کے اوقات امنڈتے آرہے تھے مثل بارات تھی میلوں میں بسی خیموں کی بستی جگہ پانے کی تھی ہر اک میں چستی دو رُویہ ڈیرے خیمے شامیانے دو ڈھائی میل تک تھے آشیانے تھے صوبہ دار کیمپ اور اُن کے حلقے قطار اندر قطار اُن کے تھے خیمے بنے تھے کیمپ خوشتر مثل عرفات نظر کو دیتی تھی دعوت ہر اک گھات بنا پنڈال مثل شہر خوباں محبت کے تھے تارے جس میں رُخشاں یہ تیری تھی کرامت اور عظمت تھی تیرے بانیوں کی نیک نیتاجلاس کی کیفیت تھا لاکھوں کا ہجوم اور پُر امن تھا نہ جھگڑا تھا نہ کوئی مکر و فن تھا یہ مجمع تیس پینتیس لاکھ کا تھا ادارہ کی نمایاں ساکھ کا تھا زحامِ بے پنہ اور پُرسکوں تھا کہ شیطانوں کا لشکر سرنگوں تھا نہ دنگا تھا نہ ٹنٹا تھا نہ آزار گلوں کے تھے محافظ گر تھے کچھ خار محبت کی تھیں زنجیریں گلوں میں تھے شامل خار بھی رنگیں گلوں میں سکینت اور بشاشت تھی کچھ ایسی کہ جیسے اہل جنت کی ہو بستی بہشت آں جا کہ آزارے نباشد کسے را با کسے کارے نباشد سکون دامن تھا دار و رسن آج مسرت اور خوشی تھی شاہِ بے تاج اٹھائیں کلفتیں اور پھر بھی سب خوش بدن خوش روح خوش اور سارے سر خوش بہر سو دین حقانی کے نغمے فضا میں چار سو بکھرے ہوئے تھے ممالک مشرقی اور مغربی سب اخوت کے نشے میں مست تھے سب