حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
٭ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ نے فرمایا : ’’خدا تعالیٰ آپ کے مدرسہ کا فیض جاری و مستمر فرمائے۔ خداتعالیٰ درس گاہ کو خصوصی مقبولیت عطا فرمائے، آپ کی درسگاہ دن دونی رات چوگنی ترقیات حاصل کرے، آپ جو دینی و تعلیمی کام کر رہے ہیں اس کی تفصیلات سن کر روح کو سکون ملتا ہے۔‘‘ سنگ بنیاد رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’مدرسہ تعمیر کیجئے، مدرسہ کا فیض جاری ہوچکا ہے‘‘ ٭ حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب ؒ نے فرمایا: ’’اللہ دارالعلوم وقف کو بامِ عروج پر پہنچائے، اس کا علمی و دینی فیضان مستمر ہو، اس کی ترقیات کی کوئی انتہا نہ ہو، آسمانِ علم پر آفتاب کی طرح چمکے۔‘‘ ٭ رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوریؒ فرماتے ہیں : ’’الحمد للہ! اللہ آپ کی کوششوں کو کامیاب فرمائے، اسے علم دین کا سب سے بڑا مرکز بنائے۔ آپ سب کو خلوص کی دولتِ بے کراں عنایت فرمائے۔ارکانِ عمل کمیٹی کا عماراتِ جدیدہ کی تکمیل میں قابل ستائش کردار دارالعلوم وقف دیوبند کے لئے خرید کردہ زمین پر تعمیر کا سلسلہ ارکانِ عمل کمیٹی کی نگرانی میں دارالاقامہ سے شروع ہوا۔ جس کے روح رواں مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی (نائب مہتمم و استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) و مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی تھے۔ دارالاقامہ کی تعمیر جوں جوں آگے بڑھتی رہی شہر سے کرائے کے مکانا ت سے طلبہ کو دارالاقامہ میں منتقل کیا جاتا رہا۔ درس گاہوں کے لئے عارضی طور پر ٹین کے شیڈ کا نظم کیا گیا، گرمی کی شدت میں جب یہ ٹین شیڈ گرم ہوجاتا تو طلبہ و اساتذہ پسینے میں شرابور ہوجاتے۔ اسی حالت میں ایک عرصہ تک تعلیم جاری رہی، اسے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی کہا جاسکتا ہے کہ گرمی کی شدت کے باوجود نہ کوئی بیمار پڑا اور نہ تعلیمی سلسلہ کے انقطاع کی نوبت آئی۔ جب دارالحدیث اور درسگاہوں کی باضابطہ تعمیر ہوگئی تو طلبہ و اساتذہ نے اللہ کا شکر اداکیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تعمیرات کی تکمیل میں مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی اور مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے بڑی جگر سوزی، محنت اور ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دئیے۔ وسائل کی قلت کی بنا پر بہت سے کٹھن مرحلے ایسے بھی آئے کہ تعمیری کام موقوف ہوتا رہا مگر ان حضرات نے ہمت نہیں ہاری اور پوری لگن کے ساتھ تعمیری سلسلہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور آج بھی اسی