حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ایسے عنوان سے ہو جو لوگوں میں معروف اور متعارف ہو۔ غریب لغات، ناشناسا تعبیرات اور بے محاورہ کلام نہ ہو، ورنہ کلام میں نہ دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے نہ تاثیر۔ اس لئے حدیث نبویؐ میں اس قسم کے کلام کی صریح ممانعت فرمائی گئی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الاغلوطات۔ (مشکوٰۃ شریف) ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے پیچیدہ اور مغالطہ انگیز کلام سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تبلیغی سلسلہ میں اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہ کہہ کر درخواست کی کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں اور میری تقریر کی تائید میں جب وہ رواں اور صاف تقریر کریں گے تو قلوب پر اچھا اثر پڑے گا ،ورنہ مجھے ڈر ہے کہ میری رکتی ہوئی زبان سے لوگ بُرا اثر نہ لیں اور تکذیب کے دَر پے نہ ہو جائیں ۔ارشاد ہے: وَاَخِیْ ہٰرُوْنُ ہُوَ اَفْصَحُ مِنّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْئً ا یُّصَدِّقُنِیْ اِنِّیْ ٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِبُوْنِ۔ ترجمہ : اور (اے میرے رب) میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ رواں ہے، تو ان کو میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج دیجئے کہ وہ (میری تقریر کی تائید اور) تصدیق کریں گے، ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ (فرعون اور اس کے درباری) میری تکذیب نہ کریں ۔ اس واقعہ سے واضح ہے کہ کلام مخاطبوں کی ذہنیت کے مناسب ہو کر ہی اثر انداز ہوتا ہے، گویا شہروں میں ادبی زبان، دیہات میں معمولی اور سادہ زبان، علمی طبقوں میں اصطلاحی زبان اور اہل فنون کے طبقہ میں فلسفیانہ زبان ہی مفید اور مؤثر ہو سکتی ہے۔(۸۲)سماعِ قبول مخاطبوں کی اس اقتضائی تقسیم سے ان کا اولین وصف حسنِ سماع ہے جو یہاں سے نکلتا ہے، جو ان میں بتقاضائے عقل راسخ رہنا چاہئے جس کا ثمرہ جذبۂ قبولیت اور تسلیم ِ حق ہے، یعنی مخاطب کا جوہر یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کو سماعِ قبول سے سنے اور بشرطِ معقولیت ماننے اور حق ہونے کی صورت میں اُسے تسلیم کر لینے کا جذبہ اپنے اندر رکھے، جسے داعی بھی اُن میں پیدا کرسکتے ہیں جو اسی آیت کے اقتضاء سے ثابت ہو رہا ہے۔