حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تراویح کا اہتمام آپ کی اہلیہ کو رمضان شریف میں تراویح کا خاص اہتمام تھا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت حکیم الاسلامؒ آخر کے چند سال سے تراویح اپنی بیٹھک میں پڑھا کرتے تھے دالان میں پردہ ہوتا تھا۔ پس پردہ اہلیہ محترمہ اور گھر اور محلہ کی دوسری عورتیں ہوتی تھیں اور پردہ کے باہر جانب قبلہ بیٹھک میں مردوں کی جماعت ہوتی تھی۔ جب کبھی رمضان میں حضرت والا کا قیام گھر پر نہیں ہوتا تو یہ فرض آپ کے لائق فرزند حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی انجام دیتے تھے۔ اس طرح اہلیہ محترمہ اذکار و اوراد، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ سب کی نہایت پابندتھیں اور اسی رنگ میں اپنے پورے خاندان اور گھرانے کو رنگنے کی سعی کرتی رہتی تھیں ۔ذمہ داریوں کا احساس حضرت والاکو اہلیہ کی وجہ سے بڑا ذہنی سکون حاصل تھا، بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال سب اہلیہ نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ حضرت کو اس طرف سے بالکل آزاد کر رکھا تھا۔ چوں کہ ذہین و ذکی تھیں ۔ اس لیے آپ کی راحت رسانی کا پورا خیال اور لحاظ و پاس تھا۔ گجراتی اورہندی زبان بھی لکھنا اور بولنا جانتی تھیں ، دارالعلوم میں گجراتی اور ہندی خطوط آتے تھے تو ان کا ترجمہ آپ اکثران ہی سے کراتے تھے۔جذبہ راحت رسانی آپ کے ساتھ انھوں نے ہند و بیرون ہند کے بہت سے مقامات کا سفر بھی کیا تھا اور جہاں جاتیں عورتوں میں رہ کر ان کو دین کی باتیں بتاتی تھیں اور ان کی اصلاح کرتی تھیں ۔ حضرت اقدس ؒنے لکھا ہے کہ: ’’ان کے ساتھ میری رفاقت ساٹھ سال رہی ہے، اس پوری مدت میں اہلیہ ہونے کے رشتہ سے ان سے اتنا متاثر نہیں تھا۔ جتنا کہ ان کی ذاتی صلاحیت و استقامت اور جذبۂ راحت رسانی واطاعت وغیرہ سے متاثر رہا۔ خدمت و اطاعت میں مزاج شناسی اور نفسیات کی رعایت کا انہیں خاص ملکہ تھا۔ بات سن کر فوراً اس کی تہہ میں پہنچ جانا اور اصولی جواب ان کا خاص رنگ تھا۔ یہی ذہانت تھی کہ عمر کا ایک بڑا حصہ راجپوتانہ میں گذارنے کے سبب گجراتی زبان اور ہندی لکھنے پڑھنے کا خاص ملکہ پیدا کر لیا تھا۔ اکثر دارالعلوم کے ہندی اورگجراتی زبانوں کے خطوط انہیں سے پڑھواتا اور ترجمہ کراتا تھا۔ گجرات کے سفروں بڑودہ، سورت، راندیر اور بمبئی وغیرہ میں وہ گجراتی عورتوں کی باتیں بے تکلف سمجھ کر ان سے گجراتی میں بات چیت