حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
درخت کا پھل جب بڑھ جاتا ہے تو شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی ہیں ، یہ نہیں ہے کہ درخت جب پھل دار ہو تو اوپر کو اٹھنے لگے۔ انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے ساری دولتیں لے کر آتے ہیں ، ان میں تواضع بڑھتی رہتی ہے لیکن مادی دولت جوں جوں بڑھتی رہتی ہے اس سے نخوت بڑھتی رہتی ہے۔(۶۳)جامع اضداد زندگی اس عنوان کے تحت صحابہ کرامؓ کی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایمان افروز تجزیہ ملاحظہ فرمائیے: صحابہ کرامؓ کی اس اعلیٰ ترین زندگی کا نور تیز بھی ہے اور پیغمبر B سے اقرب تر اور اشبہ تر بھی ہے کہ اس نے نبوت کی زندگی سے متصل رہ کر اس کی شعاعوں کا نور قبول کیاہے اس لئے یہ زندگی نہ صرف عزیمتوں کی زندگی اور اولوالعزمانہ زندگی ہے کہ جائزات کی آڑ لئے بغیر عمل کے اعلیٰ ترین حصہ ہی کو اپنالیاجائے اور نفس کی راحت طلبیوں کو خیرباد کہہ کر عملی مجاہدہ و ریاضت ہی کو زندگی بنا لیا جائے بلکہ یہ زندگی جامع اضداد بھی ہے جو کمال اعتدال لئے ہوئے ہے کہ ایک طرف نفس کشی بھی انتہائی اور ساتھ ہی ادب شریعت اور اتباع سنن نبویؐ بھی انتہائی اور ایک طرف طبعی جذبات بھی قائم اور دوسری طرف عقلی وداعی اور ملکیت بھی غالب، اس کمال اعتدال و جامعیت کے ساتھ یہ زندگی صحابہ کرامؓ کے سوا امت کے کسی طبقہ کو طبقاتی حیثیت سے نصیب نہیں ۔ آحاد و افراد اس زندگی کے حامل نظر پڑیں گے، جس میں شرف صحابیت کے سوا سب کچھ ہوگا، لیکن طبقہ کا طبقہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا ہو اور ہمہ وقت اخلاص و معرفت حد کمال کو طے کئے ہو۔ طبقہ صحابہؓ کے سوا دوسرا نہیں ۔ جنہوں نے گھر بار چھوڑ کر اور نفس کی خواہشات سے منہ موڑ کر صرف اور صرف رضائے حق کو اپنی زندگی بنایا۔ مرغوبات کو شرعی مطلوبات پر قربان کردیا۔ موطن طبیعت سے ہجرت کرکے موطن شریعت میں آکر بس گئے اور شرعی مرادوں کی خاطر نفس کی حیلہ جوئیوں اور راحت طلبیوں سے کنارہ کش ہو کر عز م صادق کے ساتھ ہمہ تن مرضیاتِ الٰہی اور سنن نبویؐ کی پیروی میں مستغرق ہوگئے اور اسی کو اپنی زندگی بنالیا۔ اس جامع اور جامع اضداد زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں اور حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ کلیۃً تارک دنیا بھی تھے اور رہبانیت سے الگ بھی، دنیا اور دنیاکے جاہ و جلال، دھن و دولت، حکومت و سیاست، گھربار، زمین، جائیداد کے ہجوم میں بھی تھے اور پھر ادائے حقوق میں بے لاگ بھی، یہ زن، زر، زمین ان کے تصرف میں بھی تھی اور پھر قلباً ان سب چیزوں سے بے تعلق اور کنارہ کش بھی، درویش کامل بھی ہیں اور قباشاہی بھی زیب تن ہے۔ حکمران بھی ہیں اور دلق گدائی بھی کندھوں پر ہے۔ ممالک بھی فتح کر رہے ہیں اور فقیری بھی بدستور قائم ہے۔ (۶۴)