حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ جو کسی قدر ترمیم و تلخیص کے بعد درج کیا گیا ۱۹۵۷ء میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی خدمت اقدس میں رنگون (برما) میں پیش کیا گیا ۔ عالی مرتبت! ہمارے قلوب شاداں و فرحاں ہیں کہ آج ہمیں سرزمین ہند و پاک کی جلیل القدر ہستی اور عالم اسلام کے ایک عظیم المرتبت مفکر کو خوش آمدید کہنے کی سعادت نصیب ہورہی ہے، ہمارے قلوب کی گہرائیوں سے نکلنے والی مخلصانہ صدائیں بے اختیار ملتِ اسلامیہ کے زعیم باوقار کو اس ورودِ مسعود پر نذرانۂ عقیدت پیش کر رہی ہیں ع اے آمد نت باعث خوش بختیٔ ما زعیم ملت! عالم اسلام کی نظر میں جامعہ عالیہ دارالعلوم دیوبند کی دینی و علمی کاوشوں کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے، آج دنیا کے گوشے گوشے میں اس مادر علمی کے فیوض و برکات سے خلق خدا مستفید ہورہی ہے۔ بر اعظم ایشا میں واقع اس عظیم اسلامی یونیورسٹی کی برق رفتار ترقی کے پس منظر میں جہاں اس کے بانیوں کی نیک نیتی اور خلوص کار فرما ہے وہیں آپ کی نصف صدی کی خدماتِ جلیلہ اور مخلصانہ و جاں نثارانہ محنتوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مفکر اسلام! آج اس ملک کی سنگلاخ زمین علم و اخلاق کے اس آفتاب تاباں کی ضیابار کرنوں کو جذب کر رہی ہے جسے دنیا دارالعلوم کے نام سے جانتی ہے، بہ ایں ہمہ یہ سرزمین ایک اور خدمت کی متقاضی تھی اور وہ ہے اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْن کا اولین مصداق یعنی حفظِ قرآن، جناب کے سامنے اس اظہارِ حقیقت پر ہمیں ناز ہے کہ ملک بھر میں اپنی نوعیت کی یہی واحد درسگاہ ہے جو اس گراں مایہ خدمت کو بلا کسی احتیاج کے محض اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے انجام دے رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آں جناب کی توجہات عالیہ ادارہ کو بامِ عروج پر پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی اور جب کبھی اس ملک کی دینی خدمات کا تذکرہ ہوگا آں جناب اس ادارہ کو فراموش نہیں فرمائیں گے۔ ضیف محترم! ہمارا آپ کی خدمت میں ہدیۂ سپاس پیش کرنا محض رسمیات میں سے نہیں ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ کا ورودِ مسعود غیروں میں نہیں اپنوں میں ہوا ہے۔ یقین فرمائیے کہ ع اتحادے ست میاں سن و تو من و تو نیست میان من و تو