حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اب اس قطعہ کو یوں پڑھنا چاہئے: ایک ہی کام سب کو کرنا ہے یعنی جینا ہے اور مرنا ہے اب رہی بحث رنج و راحت کی وہ فقط وقت کا گذرنا ہے اکبرؔ رہ گیا عزّ و جاہ کا جھگڑا یہ تخیل کا پیٹ بھرنا ہے قابلِ ذکر بھی نہیں خورد نوش یہ بہیمی کی خو سے لڑنا ہے مقصدِ زندگی ہے طاعتِ حق نہ کہ فکرِ جہاں میں پڑنا ہےاستقبالِ مجاہد حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کے احمد آباد جیل سے رہا ہونے پر یہ نظم لکھی گئی جو جامع مسجد دیوبند کے جلسۂ خیرمقدم میں پڑھی گئی۔ باد ممدودحے کریمے کہ زممد وحیٔ خویش از ثنائش ہمہ ترساں و گریزاں آمد چہ کنم مدح عزیزے کہ ز تسلیم و رضا مدح و ذم در نظرش واحد و یکساں آمد شکر معبود بجا آرم و شاداں گویم از رہِ فضلِ خدا یوسفِ زنداں آمد پیکرِ صبر و رضا رہ گرِ اخوانِ صفا یوسفِ راہِ وفا باز بکنعاں آمد اسم سامیش حُسین است و مسمّٰی حسن است روحِ تکبیر بہ تصغیر چہ پنہاں آمد نیک مردے ست کہ سرمستِ شہادت بینم ہم حیاتش ہمگی ظلِّ شہیداں آمد اے تو عیسیٰ قدمی زانکہ ہمیں خطۂ ہند بود صحرا ز قدومِ تو خیاباں آمدحیات النبیؐ مسئلہ حیات النبی میں حضرت نانوتوی قدس سرہٗ کامسلک اور آبِ حیات کا خلاصہ: جب موت بھی مزیلِ حیات آپؐ کی نہیں کہنا ہی کیا پھر آپ کی عینِ حیات کا اصلِ حیات علم ہے اور علم آپؐ کا مرکوز ذات میں ہے جو جوہر ہے ذات کا بس ذات ہی خود آپؐ کی ہے آپؐ کی حیات ہے موت ایک عارضی پردہ حیات کا یہ موت انتقال ہے تبدیلِ حال ہے جو انبیاء کے واسطے افزوں کمال ہے