حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مسجد فتح پوری دہلی کے مدرسہ میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریس علوم میں مشغول ہوئے۔ پھر دارالعلوم میں بحیثیت استاذ حدیث بلائے گئے۔ حدیث و تفسیر کے اونچے طبقہ کے اساتذہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ پھر ڈابھیل میں ایک عرصہ تک شیخ التفسیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اپنے آخری دور میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مہتمم رہے۔ صحیح مسلم کی بہترین شرح متکلمانہ انداز میں لکھی اور حکمتِ قاسمیہ کو اس میں نمایاں رکھا۔ حضرت شیخ الہندؒ کے تفسیری فوائد جو حضرتؒ نے ترجمہ کے ساتھ شروع فرمائے تھے آپ نے پایۂ تکمیل کو پہنچائے، بے مثال خطیب تھے اور خطبات میں قاسمی علوم بکثرت بیان کرتے تھے۔ تحریر و تقریر میں انہی علوم کا غلبہ تھا۔ سیاسی شعور اونچے درجہ کا تھا۔ ملکی معاملات کے اُتار چڑھائو کا پورا نقشہ ذہن کے سامنے رہتا تھا اور اس بارے میں جچی تلی رائے قائم کرتے تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال میں شریک رہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیا۔آخر میں مسلم لیگ کی تحریک میں شامل ہوگئے اور جمعیۃ علماء اسلام کی بنیاد ڈالی، تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستان پہنچ کر ترکِ وطن کر دیا۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے، پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کی جد و جہد میں نمایاں حصہ لیا۔ قرارداد مقاصد پاس کرائی۔ پاکستانی قوم نے آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لقب سے نوازا۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، پاک باز محدث، بہترین مفسر، خوش بیان اور ایک جیّد عالم ہی نہیں بلکہ ایک صاحب الرائے مفکر بھی تھے۔ فہم و فراست اور فقہ نفس بے نظیر تھا۔ ایک سفر کے دوران بہاولپور میں وفات پائی اور کراچی میں دفن ہوئے۔ پورا ملک اور حکومت سوگوار ہوئی۔ عرصہ دراز تک آپ کا غم منایا جاتا رہا۔ دو لاکھ سے زائد افراد نے نماز جنازہ پڑھی رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃ۔ (۲۰)حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندیؒ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت الاستاذ مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ جو دیوبند میں حضرت میاں صاحب کے لقب سے معروف تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے درجہ علیاء کے استاذ تھے ان سے ابودائود پڑھنے والے اب بھی برصغیر نیزہند و پاک میں ہزاروں افراد ہوں گے علم قرآن و حدیث کے بہت بڑے ماہر اور جملہ علوم و فنون کے کامل محقق مگر بہت کم گو ، حدیث کے درس میں نہایت مختصر مگر جامع تقریر ایسی ہوتی تھی کہ حدیث کا مفہوم دل میں اترجائے اور شبہات خود بخود کافور ہوجائیں ، دیوبند میں