حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
انبیاء کا دین رہا ہے، اس کے ذوق پر تمام مسائل میں اوّلین درجہ نقل و روایت اور آثار سلف کو حاصل ہے، اس لئے فضلائے ادارہ کتاب و سنت کی مرادات اقوال سلف سے،ان کے متوارث تعامل و ذوق کی معرفت کے ساتھ اساتذہ و شیوخ کی تربیت و صحبت اور معیت و ملازمت سے حاصل کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی یہ مکتبِ فکر عقل و درایت اور تفقہ فی الدین کو بھی فہم کتاب و سنت کا ایک اہم ترین رکن قرار دیتا ہے۔جامعہ دارالعلوم کا انتظامی طریقۂ کار انتظامی حیثیت سے اس دارالعلوم کی تعلیمات و انتظامات کی نگران اعلیٰ ایک مؤقر مجلس شوریٰ ہے جس میں ملک کے مقتدر علماء و اربابِ فکرو نظر فضلاء شامل ہیں ، جن میں بعض بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں ، ادارۂ اہتمام مجلس شوریٰ کا نمائندہ اور معتمد ہے جو ادارہ کا انتظام سنبھالتا ہے، اس مرکزی ادارۂ اہتمام کے تحت چوبیس انتظامی شعبے ہیں ، ساٹھ اساتذہ اور دو سو سے اوپر شعبہ جاتی عملہ ہے جو تقسیم کار کے اصول پر کام کرتا ہے، ان تمام شعبوں کا حقیقی مقصد اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات کی تکمیل اور نظام تعلیم کی استواری ہے، جس پر سالانہ تیس لاکھ روپیہ صرف ہوتا ہے، جس کی تکمیل کا شعبۂ محاسبی ذمہ دار ہے، اس کے ذریعہ ہر سال میزانیہ تیار ہو کر مجلس شوریٰ سے منظور کرایا جاتا ہے اور اسے باضابطہ آڈٹ بھی کرایا جاتا ہے۔ملّی اور اجتماعی دائروں میں جامعہ دارالعلوم کی تاریخی خدمات اسی کے ساتھ دارالعلوم کی سرگرمیاں محض درس و تدریس تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس نے قومی اور سیاسی معاملات میں بھی اندرون حدودِ شرعیہ بڑھ چڑھ کر قائدانہ حصہ لیا اور لے رہا ہے اور اس کے اکابر کے کارنامے بھی تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ حضرت سید احمد شہید بریلویؒ اور حضرت مولانا اسماعیل شہید دہلویؒ نے جہاد اور اعلاء کلمۃ اللہ کا جو نقش اپنے پاکیزہ لہو سے کھینچا تھا وہ ہر وقت علماء دیوبند کے سامنے ہے۔ ۱۸۵۷ء میں حضرت نانوتویؒ بانی اعظم دارالعلوم اور حضرت قطب وقت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سرپرست اعظم دارالعلوم نے شاملی کے میدان میں تلوار اٹھائی اور انگریزوں سے جنگ کی۔ حضرت نانوتویؒ مجاہدین کے قائد تھے، پھر ان کے تلمیذ رشید حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند اسی قیادت کو لے کر اٹھے اور آزادیٔ ہند کے لئے وہی ۱۹۱۵ء کی ریشمی خط کی انقلابی تحریک کے قائد تھے جس کا مرکز افغانستان تھا اور کثیر التعداد سینٹر مختلف ملکوں میں قائم تھے، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد میاں عرف مولانا منصور انصاریؒ، مولانا سید احمد صاحب مدنیؒ جیسے سرفروش مجاہد ان کے دست راست تھے، اس