حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے کہ ان کو یہ گوارا نہ ہوا، اس لئے حکم دیا کہ تم جانور کو ذبح کرو ،ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے اپنے آپ کو قربان کردیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ بشارت دی کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی پیش کریں ۔ اب دیکھئے یہ حکم اول تو اولاد کے بارے میں دیا گیا اور اولاد بھی کیسی اور فرزند بھی ناخلف نہیں بلکہ نبی معصوم ،ایسے بچے کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے ۔حقیقت میں انسان کو اپنی قربانی پیش کرنا آسان ہے مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو ذبح کرنا بڑا سخت اور مشکل کام ہے ،مگر حکم خداوندی تھا اس لئے آپ نے بیٹے کی محبت کو پس پشت ڈالا اور حکم خداوندی کے آگے سر جھکا دیا اور حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر منیٰ کے منحر میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ بیٹے مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کردوں ، تو حضرت اسماعیل ؑ نے فوراً فرمایا : اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ یعنی جو آپ کو حکم ہوا وہ ضرور کیجئے۔ اگر میری جان کی ان کو ضرورت ہے تو ایک جان کیا ہزار جانیں بھی ہوں تو نثار ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے رسیوں سے ان کے ہاتھ پائوں باندھے ، چھری تیز کی ، اب بیٹا خوش ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربان ہورہا ہوں ۔اُدھر باپ خوش ہے کہ میں اپنی قربانی پیش کررہا ہوں ۔ چنانچہ حکم خداوندی کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائی تو چھری کند ہوگئی اور اس وقت حکم ہوا : قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْ یَا اِنَّاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo یعنی بے شک آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ،ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں ۔ اور اب ہم اس کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیجتے ہیں اور تمہارے بیٹے کی جان کے عوض ایک دوسری جان کی قربانی مقرر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسی دن سے گائے مینڈھا یا بکری وغیرہ قربانی کے لئے فدیہ مقررہوگیا۔(۸۴)زبان اور قومی روایات کا تعلق زبان اور قومی روایات کی وضاحت کا یہ اچھوتا اسلوب بڑے بڑے زباں دانوں اور دانشوروں کے لئے چشم کشا اوردنیائے ادب کے لئے سرمایۂ افتخار ہے۔ پس جب کہ محض رضائے کار سے شریک ِکار ہونے کا حکم لگا دیا گیا ہے تو جہاں حقیقتاً عملی شرکت بھی کی جائے تو وہاں بالا ولیٰ شرکِ عمل کا حکم لگا یا جائے گا ۔ پھر عادت اورتجربہ شاہد ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان اور