حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سیراب فرماتے رہے اور راہِ حق کے طلب گار اپنی امیدوں اور آرزؤوں کی جھولی اس خزانۂ معرفت سے بھرتے رہے۔ ملک اوربیرونِ ملک میں حضرت حکیم الاسلامؒ کے مریدین اورمسترشدین کی تعداد ہزاروں سے تجاوز ہے۔ جو براہِ راست آپ کے دستِ حق پر بیعت ہوکر آپ کی روحانی تربیت اور ہدایت و اصلاح سے اپنی زندگی کو منور کیے ہوئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی تھا جو راہِ حق کے طلب گار ہوتے اور بذریعہ خط و کتابت آپؒ کی روحانی و عرفانی ہدایتوں سے مستفید ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح سے برّاعظم ہند و پاکستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے بے شمار مریدین و منتسبین اور خلفاء مجازین موجود ہیں اور حضرتؒ کا یہ سلسلۂ روحانی جاری وساری ہے۔بیعت وسلوک مالٹاسے جب حضرت شیخ الہندؒ دیوبند پہنچے تو ایک دن بعد نماز عصر حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیبؒ نے بیعت کرنے کی درخواست کی اس پر حضرت اقدسؒ نے فرمایا: ’’ اس وقت اپنی جماعت میں دو ہی صاحبزادے ہیں ، جن کا پوری جماعت احترام کرتی ہے۔ ایک مولانا محمد احمد صاحبؒ (ابن حضرت نانوتوی قدس سرہٗ) اور ایک مولانا حافظ مسعود احمد صاحبؒ (ابن حضرت گنگوہیؒ) لوگوں کا مجھ پر الزام یہ ہے کہ اس نے دونوں صاحبزادوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر میں نے تم دونوں بھائیوں کو بیعت کر لیا، تو لوگ کہیں گے کہ اب تو یہ قبضہ موروثی ہوگیا۔ پھر فرمایا کہ بھائی مالٹا سے میں کوئی بدل کر تھوڑا ہی آیا ہوں میں تو وہی کا وہی ہوں جو مالٹا جانے سے پہلے تھا۔ آپ نے عرض کیا حضرت ہم وہ نہیں ہیں ۔ جو پہلے تھے۔ پہلے ہمیں حضرت کے بارے میں کچھ شعور نہ تھا، اب ہوگیا ہے۔ بہرحال یہ باتیں آپ نے مزاحی رنگ میں فرمائیں اور اس کے بعد سکوت فرمایا۔ نماز مغرب کا وقت آگیا اور سب اٹھ کھڑے ہوئے یہ دونوں بھائی بھی چلے آئے۔ مگر پھر اسی دن بعد نماز مغرب ایک طالب علم کو بھیجا مولوی طیب کو دارالعلوم میں بلا کر لائو۔ چناں چہ حضرتؒ کی طلب پر حاضر ہوگیا آپ کو دیکھ کر فرمایا۔ مولوی طاہر کہاں ہے؟ ان کو بھی بلالو، چناں چہ ان کے پاس آدمی گیا اور وہ بھی آگئے۔ جب دونوں صاحبزادگانِ محترم حاضر ہوگئے تو حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب ؒنے عرض کیا حضرت! کیسے یاد فرمایا؟ بھائی مرید کرنے کو، تم دونوں وضو کرلو، چونکہ یہ دونوں بھائی باوضو تھے۔ لہٰذا عرض کیا حضرت ہم دونوں باوضو ہیں ۔