حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
دارالعلوم کی تا ریخ اس با ت کی شا ہد ہے کہ اس نے ہمیشہ راست کر دار او راست گفتار فر زند پیدا کئے ہیں جن پر دارالعلوم صحیح طورپر فخر کر سکتا ہے، دارالعلوم تنہا ہندوستان کا ورثہ نہیں ہے بلکہ تما م عا لم اسلامی کی میر اث ہے، اسلئے خد اتعا لیٰ سے دعا کر تا ہوں کہ اللہ تعا لیٰ اس دارالعلوم کو تر قیوں کے سا تھ با قی رکھے او ر عالم اسلا می کے لئے مفید بنا ئے۔مو لا نا ابو الکلام آزاد کی دارالعلوم میں آمد ۱۳۷۰ھ میں حکومت ہند کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادؒؔ دارالعلوم تشریف لائے۔ حضرت مہتمم صاحبؒ نے دارالعلوم کا مفصل تعارف کرایا۔ مولانا آزاد نے ایک جلسہ ٔ عام میں نہایت فصیح و بلیغ انداز میں تقریر کی اور بانی دارالعلوم کی مثالی زندگی کی خصوصیات دارالعلوم کی علمی اہمیت و عظمت پر مفصل روشنی ڈالی اور اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔اچا ریہ ونو با بھا وے کی آمد ۱۳۷۱ھ میں اچاریہ و نوبابھاوے اپنی بھومی دان کی تحریک کے سلسلہ میں دیوبند وارد ہوئے۔ حضرت مہتمم صاحبؒ سے ملاقات کی اور خوشی کا اظہار کیا اور اپنی تقریر میں کہا۔ ’’یہ یونیورسٹی ہمارے ملک کا بہترین سرمایہ ہے۔ اس نے انگریزی اقتدار کے دورِ غلامی میں عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں ۔‘‘دارالعلوم کی اعا نت کے لئے اپیل اسی سال حضرت مہتمم صاحبؒ نے مسلمانانِ عالم کے لیے ایک اپیل شائع کی جس کا مقصد دارالعلوم کی اعانت تھا۔ الحمد للہ حضرت کی اپیل کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ خصوصاً پاکستان اور جنوبی افریقہ نے اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور لاکھوں روپیہ جمع ہوا۔ ہزاروں من گندم جمع ہوا اور دارالعلوم کو اس نازک موقع پر بڑی تقویت ملی۔شعبۂ طب و دارالشفا ء کا قیا م ۱۳۷۲ھ میں شعبۂ طب اور دارالشفاء کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں مفرد مرکب اور پیٹنٹ ادویہ کے ذخیرے کے ساتھ چارپائیوں ، بستروں اور تیمارداری کا بھی ضروری سامان مہیا کیا گیا۔ ہمدرد دواخانہ دہلی تین چار ہزار روپے کی سالانہ دوائیں بھیجتا رہا۔ یہ سب حضرت مہتمم صاحبؒ کے خلوص اور سعی و کاوش کا نتیجہ تھا۔