حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مقصد کے لئے کیا جاتا ہے اور مقصد کسی نہ کسی باطنی کیفیت کا مقتضا ہوتا ہے، اس لئے قدرتی طور پر کلام کی صحیح مراد کو وہی پا سکتا ہے، جو کسی نہ کسی حد تک اس کیفیت سے آشنا اور اس سے ہم آہنگ ہو۔ عاشق کی مراد کو عشق آشنا ہی پوری طرح جان سکتا ہے، عالم کی مراد کو علم آشنا ہی سمجھ سکتا ہے، صناع کی مراد صنعت آشنا ہی پوری طرح پا سکتا ہے، اس لئے کلامِ رب کو رب آشنا ہی کسی نہ کسی حد تک پاسکتا ہے، جو ربانی کیفیات سے کسی حد تک مانوس ہو، ورنہ بے کیفیت اور ناآشنا ممکن ہے کہ کلام کے لغوی مفہوم اور معنی اول تک پہنچ جائے لیکن متکلم کے صحیح منشاء و مراد تک اس کیفیت سے مانوس ہوئے بغیر پہنچنا عادت کے خلاف ہے، چہ جائے کہ وہ لوگ جو ان کیفیات کی متضاد اور ضد کیفیات سے مانوس اور ان میں غرق ہوں تو عادۃً وہ مراد کو سمجھانے سے بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے، جس سے ادراکِ مراد کا حق ادا ہو جائے اور اگر اتفاقاً وہ الفاظ کی مدد سے کسی حد تک مرادِ حق پر مطلع بھی ہوجائیں تو اس کیفیت کے بغیر اس میں مبصر نہیں بن سکتے، جس سے اسکی مخفی حقائق ان پر کھل سکیں اور ان حقائق میں مضمر شدہ احوال ان پر طاری ہو سکیں ،جن سے حقیقی معرفت کا دروازہ کھلتا ہے اور آدمی مبصر بن جاتا ہے‘‘۔اہل سنت والجماعت کا معتدل مسلک اہل سنت والجماعت کا صحیح تعارف یہ ہے کہ اس کے عقائد، اعمال، اخلاقیات اور جملہ شعبہ جاتِ زندگی میں توازن ملحوظ ہے،آپ اسے مسلکِ اعتدال کہہ سکتے ہیں ۔ ذیل کی سطور میں اس کی کچھ وضاحت فرمائی گئی ہے۔ ’’مگر اہل سنت والجماعت نے (جو حقیقتاً اس شریعت ِحقہ کے اصلی مفسراور شارح ہیں جو خالق ومخلوق اور حادث وقدیم کا درمیانی رشتہ بتلانے اور اسے جوڑنے اور مضبوط کرنے کے لئے آئے ہیں ) اس اکہری اور ادھوری راہ میں قدم نہیں رکھا۔اگر وہ بھی اہل بدع کی طرح واجب وممکن کو غیر مربوط چھوڑ کر بعض کے الگ الگ احکام بتلادینے پر قناعت کرلیتے اور اس درمیانی نسبت کو نہ کھولتے تو وہ اپنے منصب سے نازل ہو جاتے اور شریعت ِحقہ کی تفسیر وتشریح اور توضیح وتلویح کا کوئی حق ادانہ کر سکتے۔اس لئے کسی پیچیدگی کی پرواہ کئے بغیر مردانہ وار انہوں نے اس نازک مرحلہ کی طرف قدم بڑھایا اور اس درمیانی اور معتدل رشتہ کو واشگاف کردیا جو حقیقتاً بندہ اور خدا کے درمیان قائم ہے اور درحقیقت مسئلہ تقدیر کا حقیقی موضوع ہے۔انہوں نے نہ تو صفاتِ خالق کو ثابت کرتے وقت صفات ِعبد کی نفی کی اور نہ صفاتِ عبد کو ثابت کرتے ہوئے صفاتِ خالق کی نفی کی کہ پورے جہانوں کی نفی ان کے سرپڑتی۔ بلکہ انہوں نے دونوں کی صفات کو اپنی اپنی جگہ مان