حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
گلکاریوں کا ایک نمونہ ہے شالیمار ہر ہر شجرہ پہ جس کے ہے پھولوں کی اک پھوار کتنے ہی منظر ان کے ہیں قدموں کی یادگار اُبھری ہے جن سے وادیٔ کشمیر کی بہارجموں و کشمیر (پونچھ) کا سفر ۱۹۷۶ء میں حضرت حکیم الاسلامؒ مدرسہ ضیاء العلوم پونچھ، جموں و کشمیر کے بانی و مہتمم جناب مولانا غلام قادر صاحب کی دعوت پر ادارہ میں تشریف لے گئے، آپ کے استقبال کے لئے شہر کی حدود سے لے کر مدرسہ تک ہزاروں اہل اسلام قطار درقطار کھڑے تھے اور اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی، آپ کے ہمراہ دہلی سے مفتی ضیاء الحق صاحبؒ اور آل انڈیا ریڈیو کے مشہور نعت خواں قاری فرید احمد صاحبؒ بھی تھے، اس سفر کے نشیب و فراز اور احوال کو حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے قلم سے نظم میں قلم بند فرمایا۔یہ منظوم سفرنامہ حسنِ محاکات، نادر تشبیہات، خوبصورت استعارات اور بلند پایہ افکار کا ایسا بحر بیکراں ہے جس سے شعری صنائع کی سینکڑوں نہریں نکلتی ہیں ، اسے پڑھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ بھی ان جمالیاتی کیفیات اور احساسات کا نظارہ کرتا ہے جو اس میں سمودئیے گئے ہیں ۔اس منظوم سفرنامہ کو اپنی گوناگوں شاعرانہ محاسن کی بناپربلاحذف و ترمیم بعینہٖ نذرِ قارئین کیا جارہاہے۔منظوم سفرنامہ چلے جو پونچھ پہنچنے کو دیوبند سے ہم تو ابتدائے سفر میں چھیانوے سن تھا جو آئے پونچھ تو ستانوے کا تھا آغاز لگا سفر میں برس دن بلا کا یہ دن تھا سفر کا طول، مسافت کا طول، وقت کا طول ہر ایک طول طوالت میں طول مربن تھا پہاڑوں اور پہاڑوں کے دروں کا یہ سفر عجب قسم کے مصائب کا ایک معدن تھا نہ ریل تھی، نہ ایئر تھا، تھی ایک کار فقط اور اس میں قید کا عرصہ مکمل ایک دن تھا