حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کیں اور مختلف سوالات کے جوابات دیئے۔جمعیۃ العلماء افغانستان کی طرف سے آپ کی خدمت میں جو سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ وہ فارسی ہی میں تھا اورآپؒ نے اس کا جواب بھی شستہ فارسی ہی میں دیا تھا اور وہاں کے اہل علم آپ کے علم و فضل سے کافی متاثر ہوئے تھے۔درجہ عربی میں داخلہ یہ ایک ضمنی بحث فارسی دانی کے سلسلہ میں آگئی تھی، اس کی تفصیل اپنی جگہ آئے گی۔ عرض یہ کیا جارہا تھا کہ۱۳۲۹ھ میں آپ نے درجہ فارسی سے فراغت حاصل کر لی اور ۱۳۳۰ھ سے درجہ عربی میں داخل ہوئے۔عربی کے اساتذہ اساتذہ کے سلسلہ میں خود حکیم الاسلامؒ کا بیان ہے کہ صغریٰ، کبریٰ مکمل اورمرقات کا ابتدائی حصہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ؒنے خود خواہش کرکے بطور خاص پڑھایا اوراس کے بعدمنطق کی کتابوں میں بقیہ مرقات، تہذیب، شرح تہذیب، قطبی، میر قطبی، سلم العلوم اور اس کی شرح ملا حسن حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (م۱۳۸۷ھ) کے پاس ہوئی اور حمد اللہ، قاضی مبارک حضرت مولانا رسول خاں ؒکے یہاں ، جو معقولات کے جید استاذ تھے اور مسائل کے سمجھانے میں مہارت تامہ رکھتے تھے، کافیہ حضرت شیخ الہندؒ نے خود شروع کرائی اور اس کا کچھ حصہ سبقاً سبقاً خود پڑھایا بھی اوراس کے بعد بقیہ کافیہ اور شرح جامی حضرت مولانا نبیہ حسن ؒاستاذ دارالعلوم کے یہاں ہوئی، جن کو فن نحو سے بڑی گہری مناسبت تھی۔ آپؒ نے شرح وقایہ حضرت مولانا گل محمد خاں ؒ کے پاس پڑھی اور اس کے بعد ہدایہ اوّلین شرح عقائد، نسفی، عروض المفتاح اور میبذی استاذ الاستاذہ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؒ کی خدمت میں اور ہدایہ آخرین حضرت مولانا اعزاز علیؒ سے جو دارالعلوم کے حلقہ میں حضرت شیخ الادب سے یاد کیے جاتے تھے۔ مشکوٰۃ شریف اورمسلم شریف آپؒ نے اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ سے پڑھی، جنھوں نے اپنے صاحبزادہ ہی کی خاطر ضعف و نقاہت کے باوجود اپنے پاس رکھیں اور پوری کرائیں اورسنن ابودائود حضرت مولانا محمد میاں اصغر حسین دیوبندیؒ سے نسائی حضرت علامہ بلیاویؒ کے یہاں ہوئی اور ابن ماجہ حضرت مولانا غلام رسول خاں ؒکے پاس اور بخاری شریف، ترمذی شریف محدث العصر حضرت علامہ سید انورشاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۲ھ) نے پڑھائیں ، جو اس وقت دارالعلوم کی مسند صدارت تدریس پر فائز تھے اور جن کے علم و فضل اور وسعتِ مطالعہ اور قوت حافظہ کا عرب و عجم میں شہرہ تھا۔ جلالین شریف، مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد اور