حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تقریر اور مناظرہ کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کا وجود سب سے وسیع کارنامہ ہے۔ حضرت نانوتویؒ کے طرزِ فکر اور علم و نظر کے حاملین نے ان راہوں پر اپنی کوششیں صرف کیں اور دورِ حاضر میں جب اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو صرف آپ کی ذات گرامی ان اوصاف کی حامل اور جامع نظر آتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی خدمت اور علمی چمن کی آبیاری سے جو نتائج آپ کی زندگی میں رونما ہوئے ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اس مرکز علوم شرعیہ کو آفتاب نصف النہار بنادیا اور آج دارالعلوم دیوبند بلاشبہ ایشیاء کا سب سے بڑا دینی و علمی سرچشمہ ہے جہاں تشنہ کامان علمِ دین اقطارِ عالم سے حاضر ہو کر بقدر ظرف سیرابی حاصل کرتے ہیں اور ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں فرزندانِ دارالعلوم، آسمان علم و معرفت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمک رہے ہیں ، سچ پوچھئے تو ان کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔ اسی طرح حضرت نانوتویؒ کے علمی و روحانی سلسلہ میں آپ نے ہر ہر پہلو سے وہ عظیم کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں کہ دور حاضر میں آپ کے علاوہ کسی نے اس وادی پُرخار میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کی، تصوف و سلوک اور معرفت کی سڑکوں کو عبور کرنے کے ساتھ گم گردگانِ منزل کی ہدایت آپ کا شب و روز کا مشغلہ ہے۔ اس دور قحط الرجال میں بہت کم ایسے بلند پایہ افراد ملتے ہیں جنہیں اسلاف کی صحیح جانشینی کا فخر حاصل ہو۔ سچ ہے کہ دور حاضر میں حضرت نانوتویؒ کے باطنی علوم کو سننے اور دیکھنے کے لئے گوش برآواز اور چشم براہ تھا، آپ نے اس زاویہ حیات کو رعنائی و یکتائی اور حسن و جمال عطا فرمایا۔ یادگاراکابر! حضرت نانوتویؒ کی ذات گرامی سے اپنی کسی مناسبت کے بعد مزید کسی گذارش کی ضرورت نہیں تاہم جن اوصاف اوصاف حمیدہ نے آپ کی ذات والا شان کو بین الاقوامی شخصیت بنایا ہے، ان میں آپ کے علم و فضل، تقویٰ و معرفت الٰہی کے ساتھ حسن اخلاق کو بڑا دخل ہے۔ زبان کی حلاوت، دعوت الی الخیر میں مناسب اسلوب اور مواعظ حسنہ کا بہترین طریق ایک ایسا وصف ہے جس نے آپ کی ذات کو عوام و خواص کے لئے یکساں طور پر مرجع و مرکز کی حیثیت عطا کی ہے اور اس وقت پورا عالم اسلام آپ کی قیادت و رہنمائی کا محتاج ہے۔ امت مسلمہ آپ کی نگاہ حقیقت شناس کو اپنے لاینحل مسائل کے لئے علاج تصور کرتی ہے۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں بصد عجز و نیاز دعا کرتے ہیں کہ خداوند قدوس آپ کے عزائم میں رسوخ و بلندی، کوششوں میں قوت و کامیابی، عمر و اقبال اور مراتب و مناصب میں ترقی عطا فرمائے اور دیر تک امت مسلمہ پر آپ کا سایہ باقی رکھے۔ آمین آخر میں پھر ہم آپ کی تشریف آوری کے لئے ہمہ تن سپاس گزار ہیں ۔ امید ہے کہ آپ اپنے قیمتی لمحات کا کچھ حصہ ہماری رہنمائی میں صرف فرمائیں گے۔(۱۱۴)