حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مستحکم کرنا کوئی ایسا معمولی کام نہیں ہے جس سے صرفِ نظر ممکن ہو۔ اس سلسلہ میں حکومت خداداد افغانستان سے پچاس ہزار کی گراں قدر رقم کا حصول اور اس سے بھی زیادہ والی افغانستان کی توجہ کا اس طرف مبذول کرانا آں محترم کے اس علم و انتظام، فکرو و تدبر اور فراست و اصابت رائے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جس کے بغیر کسی ایسی مذہبی و علمی درسگاہ کے سفینۂ اہتمام، بقاء و قیام کا ساحل مراد تک پہنچنا مجالِ عادی کہا جاسکتا ہے۔ مکرمت پناہ! ہم متوسلین دارالعلوم اگرچہ جسماً اپنی مادر علمی سے ایک ہزار میل سے بھی زیادہ دور ہیں اور قاسم ارزاق نے ہمارے وسائل حیات و معاش کو اس سرزمین سے وابستہ کرکے ہمیں اپنی محبوب درسگاہ اور ہمارے ذہن و فکر کے مربیوں سے تابدیر مہجور رہنے پر مجبور کردیا ہے لیکن ہم آپ کو صدق نیت اور خلوصِ فکر و طوبت کے ساتھ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے مضطرب دل اور ہماری بے قرار روحیں کبھی ان دونوں کو فراموش نہیں کرسکتیں اور نہ کبھی ہمارے اذہان و افکار اپنی پیاری درسگاہ کے سود و بہبود سے غافل اور اس کے شیون ارتقاء و استحکام سے بے تعلق ہوسکتے ہیں ۔ ثریا اعتلاء ! ہم اگر چہ اپنے جذبات میں سے یکے ازہزار کا بھی اظہار نہیں کر سکے لیکن ان سطور کی کوتاہ دامانی ہمیں کفِ لسان قلم پر مجبور کرتی ہے، اس لئے ہم بادل ناخواستہ ایسے اجمال سے کام لیتے ہوئے جسے شاید بخل کہا جاسکتا ہے ایک دو ضروری امور کی طرف آں محترم کی توجہ گرامی مبذول کراتے ہوئے اپنی اس گذارش مضطرب کو ختم کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ فضیلت پژوہا! ہمیں دلی اندوہ و ملال کے ساتھ اس تلخ حقیقت کا ہمیشہ اعتراف رہا ہے کہ دارالعلوم جیسی درسگاہ جس نے ملت اسلامیہ کے ہزاروں افراد کو فضیلت نثار و فضیلت پناہ بنا دیا آج تک نہ جانے کیوں اپنے متوسلین و منتسبین کی ایک جامع تنظیم و ارتباط کی ضرورت کو جو ہزاروں ہزار سعادات و برکات پر منتج ہوسکتی ہے ناقابل اعتناء سمجھتی رہی ہے۔ سنا گیا تھا کہ خاص اسی مقصد کیلئے کوئی شعبہ مستقلاً قائم کیا گیاہے۔ اگر یہ درست ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ دکن کو اس کے دائرہ عطوفت و اعتناء سے کیوں محروم رکھا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ تنظیم و ارتباط کے لوائح عمل اور دائرہ کار کو محیط الکل بنا لیاجائے۔ ضروریات حالات سے غض بصر روا نہ رکھتے ہوئے بعجلت ممکنہ اس کام کی تکمیل ہوجائے اور ایک شخص بھی متخرجین و منتسبین دارالعلوم میں سے خواہ وہ کہیں کیوں نہ ہو، ایسا نہ رہ جائے جس کے نام اور ضروری حالات سے دارالعلوم باخبر نہ ہو۔ و دمتم یاسیدنا بالخیر والسلامۃ والھناء و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ الذی لا یجری سواہ للحمد والثناء۔