حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اے نور نگاہِ قاسم! تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، تمام امت مسلمہ بالخصوص ملت اسلامیہ پاکستان آج پھر انہیں عظیم فتنوں کے طوفانوں میں گھری ہوئی ہے،سیلاب و الحاد و ارتداد کے تھپیڑے ایمان و اسلام کے قلعہ سے ٹکرا رہے ہیں ، عیسائیت و مرزائیت کے عفریت امت مرحومہ کو لقمۂ تر سمجھ کر نگلے چلے جارہے ہیں ۔ خسر و پرویز کے یہ پیرو پیام و نامۂ مصطفویؐ کو آج پھر پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، جس شمع نور و ہدایت کو کفر و باطل کی تیز و تند آندھیوں سے قاسمؒ و رشیدؒ نے بجھنے نہ دیا تھا، اے پاسبانِ ملت! آج اسی شمع فروزاں کو بجھانے پر تمام طاغوتی طاقتیں کمر بستہ ہیں ، ارتدادی فتنوں کے ان امنڈتے ہوئے سیلابوں سے خودہماری حکومت مضطرب و حیران ہے، بتائیے آج کس قاسمؒ کو پکاریں ، کس رشیدؒ کو بلائیں اور کہاں سے لائیں محمود الحسنؒ اسیر مالٹا کو، اس قافلہ رفتہ کی حدی خواہاں کو اٹھ اٹھ کر ہماری نگاہیں تلاش کر رہی ہیں مگر وہ قافلہ جاچکا، اب ہم اسکو تونہیں پاسکتے لیکن ؎ ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تلک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تلک آپ باقیات الصالحات میں سے ہیں اور اس وقت تبلیغ و ہدایت کا مرکز و مرجع ہیں ۔ حکیم الاسلامؒ! آپ کی تشریف آوری ہم مضطرب الحال لوگوں کے لئے باعث صد طمانینت اور وجہ سکون ہے۔ آپ کی زندگی کے زریں لمحات امت کے اس درد و کرب کے علاج و اندمال میں بسر ہورہے ہیں ۔ خدا را ہمارے درد کا مداوا فرمائیے اور ہمیں قرآن و سنت کے وہ مواعظ سناجائیے جو ہمارے ایمانوں کو تازگی اور ہمارے یقین کو ثبات بخشیں ، نیز اپنی مستجاب دعائوں میں ہم نحیف و نزار خدام کو ہمیشہ یاد فرماتے رہا کریں ۔ آخر میں ہم صمیم قلب سے ایک بارپھر حضرت والا کے دیدار پر اپنی بے پایاں مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس زحمت فرمائی پر آں جناب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی ذات بابرکات کو ہمارے سروں پر ہمیشہ ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین ……v……