حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جواب : فرمایا کہ صبر کا تعلق ہاتھ، پیر سے نہیں ، بلکہ قلب سے ہے اور قلب کا وظیفہ یہ ہے کہ صبر کرے اور صبر کے معنی یہ ہیں کہ بندہ رضا کا اظہار کردے کہ جو کچھ منجانب اللہ ہوا وہ ٹھیک ہوا، باقی ادھر سے امر ہے کہ جدوجہد بھی کرو اور کوشش بھی کرو۔ ہاتھ پیر سے سعی بھی کرو، یہ صبر کے منافی نہیں ہے۔ سعی کا حاصل یہ ہے کہ اس چیز کو پانے کے لئے جدوجہد کرو جو گم ہے لیکن جو کچھ نتیجہ نکلے اس پر راضی رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا بھی صبرہے، اس میں چوں و چرا بالکل نہ کریں ۔ رہا یہ کہ صبر کس طرح سے کرے تو اس کی بھی تدبیر ہے،یعنی قلب کے اندر تشویش نہ ہو کہ ہائے میری فلاں چیز کھوگئی، اب کیا ہوگا، جب کسی چیز کے تلف ہونے یا فقدان پر صبر کرے گا تو جب تک اس کا کوئی بدل موجود نہ ہوگا جس کی طرف رجوع کرے تو اس وقت تک صبر نہیں ہوسکتا، اس لئے مصیبت آنے پر اس کے بعد پر غور کرے کہ کیا گیا اور کیا باقی ہے؟ فرمایا کہ : ’’ایک بزرگ کہیں جارہے تھے، دیکھا کہ ایک بچھو بڑی تیزی سے کہیں جارہا ہے، یہ بھی اُس کے پیچھے لگ گئے، ان کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ بچھو کسی کام پر من جانب اللہ مامور ہے۔ راستے میں ایک نالہ آیا، بچھو بڑی تیزی سے اس کو بھی عبور کرگیا۔ دیکھا کہ سامنے ایک باغ ہے اس میں جارہا ہے، پھر دیکھا کہ ایک بزرگ باغ میں سورہے ہیں ۔ اُدھر سے ایک سانپ کاٹنے کے لئے بھی تیزی سے آرہا ہے، جب سانپ اس شخص کے پاس پہنچا تو اُس نے سر کاٹنے کے لئے اٹھایا، فوراً بچھو نے سانپ کو ایک ڈنک مارا، سانپ پانی پانی ہوگیا، انہوں نے ان کو اٹھایا۔ معلوم ہوا کہ کوئی اونچے لوگوں میں سے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ کہاں تو اُس بزرگ نے واقعہ سنایا تو حق تعالیٰ شانہٗ نے سانپ کی موت مقدر کی تھی اور بچھو کو مقرر کیا تھا اُن کو بچانے کے لئے اور یہ بزرگ جو پیچھے گئے تھے اُن کو دکھانا تھا کہ ایک ہی واقعہ میں ہماری کتنی مصلحتیں ہوتی ہیں ، کسی کی موت مقدر کسی کی حیات مقدر اور کسی کے لئے علم و حکمت مقدر، واقعہ ایک مگر پہلو اتنے۔‘‘ سوال : قارون کے بارے میں فرمایا گیا کہ اے موسیٰ : اگر ایک مرتبہ بھی قارون مجھ سے فریاد کرتا تو میں اس کی فریاد سُن لیتا اور اُس کو بچا لیتا یعنی عین عذاب کے وقت مغفرت کا وعدہ ہے اور قوم یونس ؑ کے ایمان کو عذاب کے وقت قبول کرلیا گیا اور عذاب ہٹا لیا گیا مگر فرعون کے ایمان کو عذاب کے وقت قبول نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی مغفرت تامہ کا ظہور بظاہر اسی وقت معلوم ہوتا کہ فرعون جیسے گناہگار کے ایمان کو قبول کرلیا جاتا۔ اگر فرعون کے ایمان کو اس لئے قبول نہیں کیاگیا کہ اس نے عین عذاب کے