حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اس دور ترقی میں جب تمدنی ایجادات اور مادیات کے نئے نئے انکشافات کا چرچا ہوتا ہے تو بطور تکملہ سائنس کا ذکر بھی ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ دور حاضر نے اپنی اعجازی کروٹ سے دنیا کو دیوانہ بنا دیا مثلاً: وسائل خبر رسانی کے سلسلہ میں ٹیلی فون اور ٹیلی گراف سے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، ریڈیو اور لاسلکی اور دوسرے ایسے ہی برقی آلات سے عالم کو مبہوت کردیا تو ساتھ ساتھ سائنس کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کے سنہرے آثار ہیں یا مثلاً وسائل نقل و حرکت کے سلسلہ میں جب ریل، موٹر، ہوائی جہاز اور دوسری بادپیما سواریوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ساتھ ہی سائنس کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کا طفیل ہے یامثلا صنائع و حِرَف کے سلسلہ میں لوہے، لکڑی کے خوشنما اور عجیب وغریب سامان تعمیرات کے نئے نئے ڈیزائن اور نمونے، سیمنٹ اور اس کے ڈھلائو کی نئی نئی ترکیبیں اور انجینئری کی نئی سے نئی اختراعات جب سامنے آتی ہیں تو سائنس کا نظر فریب چہرہ بھی سامنے کردیا جاتا ہے کہ یہ سب اسی کے خم ابرو کی کارگزاریاں ہیں ، اس طرح نباتاتی لائن میں زراعتی ترقیات، پھل اور پھول کی افزائش کے جدید طریقے اور نباتات کے نئے نئے آثار و خواص کے متعلق انکشافات کا نام جب لیاجاتا ہے تو وہیں سائنس کا نام بھی پورے احترام کے ساتھ زبانوں پر آجاتا ہے۔ اسی طرح حیوانی نفوس میں مختلف تاثیرات پہنچانے کے ترقی یافتہ وسائل اور آپریشنوں کی عجیب وغریب پھرتیلی صورتیں ، کیمیاوی طریق پر فن دوا سازی کی حیرت ناک ترقی، تحلیل و ترکیب کی محیر العقول تدبیریں ، بجلی کے ذریعہ معالجات کی صورتیں جب زبانوں پر آتی ہیں کہ یہ سب اسی کے درخشندہ آثار ہیں ۔ اس سے میری ناقص عقل نے مجھے اس نتیجے پر پہنچا یا ہے کہ موضوع عمل موالید ثلاثہ،جمادات،نباتات اور حیوانات کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ پھر چوں کہ ان ہر سہ موالیدکی ترکیب عناصر اربعہ آگ، ہوا، پانی مٹی سے ہوتی ہے جو تقریباً ایک مسلمہ چیز ہے اور اس لئے اس پر کسی استدلال کے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس لئے گویا سائنس کاموضوع بلحاظ حقیقت عناصر اربعہ ٹھہر جاتے ہیں جن کی خاصیت اور آثار کا علماً سمجھنا اور پھرکیمیاوی طریق پر ان کی تحلیل و ترکب کے تجربات سے عملاً نئی نئی اشیاء کو پردہ ظہور پر لاتے رہنا سائنس کا مخصوص دائرۂ علم وعمل ہوجاتاہے۔ پس سائنس کی یہ تمام رنگ برنگ تعمیریں درحقیقت انہی چار ستونوں (عناصر اربعہ) پر کھڑی ہوئی ہیں ۔ اس کے بعد اگر تفصیلی حقیقت کا مختصر عنوان میں خلاصہ کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ سائنس کا