حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اس سلسلہ میں کٹھن مرحلہ ایسی جامع شخصیتوں کی فراہمی کا ہے جو شرعیات اور عصریات میں یکساں حذاقت ومہارت کی حامل ہوں ، عموماً اور اکثر و بیشتر ماہرین شرعیات، عصریات سے کچھ نابلد اور موجودہ دنیا کی ذہنی رفتار اور اس کے گوناگوں نظریات سے بے خبر ہیں اور ماہرین، عصریات اکثر وبیشتر شرعیات سے ناآشنا ہیں ۔ اس لئے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا بار اگر تنہا ایک طبقہ پر ڈال دیا جائے تو علماء کی حد تک بلاشبہ مسائل کی تشکیل قابل وثوق ہوگی لیکن ممکن ہے جدید طبقے کے اعتراضات کا ہدف بن جائے اور دوسری طرف ماہرین عصریات جبکہ عامۃً دینی مقاصد اور ’’اسلامی تشکیل جدید‘‘ کا بار محض انہی کے کندھوں پر ڈال دیا جائے تو حوادث کے حد تک وہ ماہرین شریعت کے اعتراضات کا ہدف بن جائے گی، بہردو صورت تشکیل جدید کا خاکہ ناتمام بلکہ ایک حد تک نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ان حالات میں درمیانی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ اس تشکیل کے لئے دونوں طبقوں کے مفکرین کی مشترک مگر مختصر اور جامع کمیٹی بنائی جائے جس میں یہ دونوں طبقے اسلام کے تمام تمدنی، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں اپنے اپنے علوم کے دائرے میں غور و فکر اور باہمی بحث و تمحیص سے کسی فکر واحد پر پہنچنے کی سعی فرمائیں اور جامع فکروں کو کتاب و سنت اور فقہ کی روشنی میں مسائل کی تنقیح میں استعمال کریں تو وہ فکر یقینا جامعیت لئے ہوئے ہوگا۔ جس میں دینی ذوق اور شرعی دستور بھی قائم رہے گا اور عصری حالات سے باہر بھی نہ ہوگا، نیز ایک طبقہ کا ہدف طعن و ملامت نہیں بن سکے گا اور مسائل کے بارے میں کوئی خلجان سدِّ راہ نہ ہوگا۔ البتہ مفکرین کو یہ ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اسلام کوئی رسمی اور دنیوی قانون نہیں بلکہ دین ہے جس میں دنیا کے ساتھ آخرت بھی لگی ہوئی ہے اور ہر عمل میں خواہ وہ فکری ہو یا عملی، جہاں انسان کی دنیوی زندگی میں شائستگی کی رعایت رکھی گئی ہے اور انہیں تنگی اور ضیق و حرج سے بچا کر ہمہ گیر سہولتیں دی گئی ہیں ۔ وہیں رضاء خداوندی اور آخرت کی جواب دہی بھی ان پر عائد کی گئی ہے۔ اس لئے اسے محض دنیوی قوانین اور صرف معاشی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حوادث کا آلۂ کار بھی نہیں بننے دیا گیا ہے کیوں کہ احوال ہمیشہ بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے، حال کے معنی ہی ’’ما حال فقد زال‘‘ کے ہیں (یعنی جو حال آیا وہ زائل بھی ہوگا) حال تو بدلنے ہی کے بنایا گیا ہے لیکن اصول فطرت بدلنے کے لئے نہیں لائے گئے ہیں ، وہ اپنی جگہ اٹل ہی رہیں گے،البتہ ان شرعی اصولوں میں ایسی وسعتیں ضرور رکھی گئی ہیں کہ وہ ہر بدلتی ہوئی حالت میں وقت کے مناسب رہنمائی کرسکیں ، اس لئے مفکر کا کام صرف اتنا ہی ہوگا کہ بدلے ہوئے حالات اور نئے حوادث کو سامنے رکھ کر ان جزئیات مسائل کو سامنے رکھ کر ان جزئیات مسائل کو سامنے لے آئے جو اس حادثہ کے بارے