حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پر ہر چیز کی تلاشی لیتے ہیں اور چھان بین کرتے ہیں مگر وہاں پر یہ بات نہیں ہے، صرف یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کوئی بات قابل اعتراض تو نہیں ، اگر کہہ دو کہ نہیں تو کہتے ہیں جائو، البتہ اگر کسی پر شبہ ہوجائے یا گورنمنٹ کا اشارہ ہو تو پھر تلاشی کرتے ہیں ، یہ حسن ظن ہی کا معاملہ ہے، لہٰذا ہر چیز کے اندر قلب کی یکسوئی بڑی نعمت ہے، آدمی کا سینہ آئینہ کے مانند ہو، اس میں کوئی کھوٹ نہ ہو تبھی عبادت کے اندر یکسوئی پیدا ہوسکتی ہے، اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ اگر آپس میں جھگڑا ہوجائے تو تین دن کے اندر مصافحہ کرلو اور ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلے، اگر کسی سے غلطی ہوجائے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرلے، اگر لوگ ایسا کرلیا کریں تو بات ختم ہوجائے گی ورنہ آپس میں تشدد بڑھتا ہی رہے گا اور یہ قلب کے لئے مضر ہے تو عبادت کا حاصل ووسیلہ ہے جو عبد اور معبود کے درمیان قائم رہتا ہے اور وہ یکسوئی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حکیم الاسلامؒ نے بخاری کا بھی درس دیا ہے اور کیا کیفیت تھی۔ یہ جاننے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ حکیم الاسلامؒ نے بخاری شریف اپنے محبوب اور مخصوص استاذ علامہ کشمیریؒ سے پڑھی تھی، جو امتیازات شیخ کے تھے ان کا ترشح تلمیذ رشید کے انداز پر بھی، متن پر کلام، روایت اور سند پر بحث، رجال حدیث پر گفتگو ، تراجم کی تشریح، مشکلات الحدیث کا حل ، امام بخاریؒ کے تفقہ پر ارشادات، فقہ الحدیث کا تجزیہ، مسائل کی توضیح، حجۃ الاسلام امام نانوتویؒ کی روایتی و درایتی بصیرت کا جائزہ، مراجع و مآخذ کی نشاندہی، اپنے اساتذہ کے نقاط نظر کی وضاحت، سلوک و احسان کا تذکرہ، بزرگوں کے سیرت ساز واقعات کا ذکر، ان سے عمیق اور لطیف نتائج کا استنباط، حضرت نانوتویؒ کے علوم اور افکار کی وضاحت کا ملکہ تمام۔ مولانا اکبر شاہ بخا ری لکھتے ہیں : ’’حضرت حکیم الاسلام ؒ کی حیات طیبہ کا اکثر حصہ درس و تدریس اور تبلیغ و ارشاد میں گذرا، جس طرح آپ فضل و کمال میں عدیل و مثیل نہ رکھتے تھے اسی طرح درس میں بھی آپ کی امتیازی شان تھی اور تدریس میں بڑا کمال حاصل تھا۔ آپ کا درس پُر وقار اور شائستہ ہوتا تھا اور حلقۂ درس کو دیکھ کر سلف صالحین اور اکابر محدثین کے حلقۂ تدریس کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا۔ زمانۂ تدریس کے آغاز میں منطق و فلسفہ اور اصول فقہ و غیرہ کتب پڑھاتے رہے اس کے بعد حدیث کی اعلیٰ کتابیں زیر درس رہیں اور ہزاروں افراد کو اپنی زندگی میں فیض یاب کیا۔‘‘ حجۃ اللہ البالغہ آپ کے درس میں زیادہ رہتی تھی۔ جس میں آپ کے حکیما نہ ذوق کے جوہر کھلتے اور پڑھنے والوں کی ان نا در تشر یحا ت سے شریعت اسلا میہ کے مخفی پہلو و ں تک رسا ئی ہو تی، ابن ماجہ شریف اور مشکوٰۃ شریف بھی برابر زیرِدرس رہیں کئی سال تک شمائل ترمذی کا درس بھی دیا ۔(۴۷) ……v……