حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سیوہارویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلویؒ، شورش کاشمیری کی سحربیانی معروف، عہد حاضر میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کا خطاب اپنی متانت، علمیت اور فکر و بصیرت میں زبان زد خاص و عام۔ حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کا خطابت کی دنیا میں اپنے منفرد لب و لہجہ اور مخصوص اندازکی وجہ سے نام، مگر حکیم الاسلامؒ کی بات ہی کچھ اور ؎ ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِبیاں اور حکیم الاسلامؒ کی خطابت اپنے عہدمیں خطابت کی معراج اور خطابت کا اعجاز، نئے نئے مضامین، نئے نئے افکار کا مرقع، آیاتِ کریمہ، احادیث شریفہ،آثارِ مبارکہ کا عطر، ایمان افروز واقعات، بصیرت انگیز حقائق، علوم جدیدہ اور سائنسی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا، حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کے علوم و افکار کی دلنشیں تشریح کا خزانہ، شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی روحانی و احسانی تعلیمات کا دفتر، دعوت و ارشاد کے مضامین کا بحر بیکراں ، حدیث و فقہ، فلسفہ و کلام، تاریخ و سیرت، اخلاقیات و آداب کا خزانۂ عامرہ، لہجہ شیریں ، اسلوب پاکیزہ، پیرایۂ بیان مدلل، ڈھائی ڈھائی تین تین گھنٹے لگاتار بولتے اور مجمع لذتِ تقریر سے ھَلْ مِنْ مَزِیْد کی تصویر بنارہتا۔ مولانا حکیم عبدالرشیدمحمود گنگوہیؒ نے اپنے تعزیتی مکتوب میں وصف تقریر کی عکاسی کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’ان کی شیریں زبانی، شگفتہ بیانی، صورت نورانی، ہوش مندی، فکر ارجمندی، ذہن اور درد مندیٔ دل کو کون بھلا سکتا ہے، دوائر علمیہ ان کی جامعیت، علوم و افکار کا تنوع، ادبی ذوق، خوبی تعبیر، حسین و بدیع ترجمانی، حکمت ربانیہ بھی ولی اللٰہی بھی ابن جوزی کی سی سحر انگیزی بھی، کسی صاحبِ ذوق، جوہر شناس کورہ رہ کر کیسے یاد نہ آئے گی، عجزت النساء ان یلدن مثل طیب اب وہ کوہ کی بات کوہ کن کے ساتھ گئی، کس کس نادرہ اور حلیفہ پر تعجب کریں ، زبان ایسی کہ سب سمجھیں ، بیان ایسا کہ دل مانے، عقل کی پاسبانی بھی لیکن کہیں کہیں اسے تنہا بھی چھوڑ دے اور افکار بھی، دلائل عقلی بھی نقلی بھی، جدلِ عدل بھی، انفسی بھی آفاقی بھی اور حقائق و معرفت آگیں بھی۔‘‘ (۴۸) مولانا مفتی محمد یوسف صاحب لدھیانویؒ فرماتے ہیں : ’’حق تعالیٰ شانہٗ نے حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کو خطابت کا خاص ذوق، زبان و بیان کا خاص انداز اور افہام و تفہیم کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں بلاتکلف خطاب فرماتے تھے۔ زبان ایسی صاف اور شُستہ اور جملے ایسے نپے تلے کہ گویا سامنے کتاب رکھی ہے اور