حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کے مقدس ارشادات کے الفاظ اور جملے ہی نہیں ، ایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ محفوظ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ امتیاز اور شرف صرف امت ہی کو حاصل ہے کہ اس کے پاس نہ صرف اللہ کی آخری کتاب اور آخری پیغمبرؐ کی سنت محفوظ ہے بلکہ اللہ کے آخری نبیؐ کی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحہ کے اعمال، طور طریقے اور احوال تک محفوظ ہیں ، حتی کہ جن نفوس کو آپؐ کی پاکیزہ صحبت میں ایک لمحہ بھی گزارنے کی سعادت میسر آئی، ان کے حالاتِ زندگی بھی محفوظ بلکہ دین کا حصہ بن گئے۔ ابتدائی دینیات کے ایک معصوم اور سادہ لوح بچہ سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے بارے میں کوئی سوال کیجئے، یقین ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ بے خبر نہ ہوگا، اس کے برخلاف کسی عیسائی یا یہودی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں ان کے ماننے والوں میں سے کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی سوال کریں گے تو سکتہ میں آجائیں گے، ان تک اولاً تو کچھ پہنچا ہی نہیں اور بدقسمتی سے پہنچا بھی تو وہ تحریف و تصرف کاایسا ملغوبہ ہیکہ جس کو پڑھ کر کسی صحیح بات کا پتہ لگانا تو دور، یہ بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ آخر یہ ہے کیا چیز؟ جد امجد حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب قدس سرہٗ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، آپ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ بانی دارالعلوم دیوبندکے علوم و افکار، ان کے امین اور ترجمان تھے۔ امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ جیسی عظیم الشان ہستیوں سے انہوں نے کسب فیض کیا اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ جیسے شیخ کامل سے روحانی تربیت پائی۔ گھر کا ماحول خالص علمی اور دینی، تقریباً ساٹھ سال تک اپنے جد امجد کے قائم کردہ سرچشمہ فیض دارالعلوم دیوبند کے بے مثال مہتمم، اپنے دورمیں ملت اسلامیہ ہند کے متفق علیہ، دینی قائد، عظیم داعی دین، بلند پایہ خطیب، بہترین متکلم، شاندار مصنف اورمدرس، ایک دانشور، مفکر اور تقویٰ و طہارت اور اخلاص و للہیت کے پیکر تھے۔ راقم السطور کو اپنے بچپن سے حضرت حکیم الاسلامؒ کے آخری وقت تک ان کے معمولات، معاملات، معاشرت، سیرت و اخلاق اور عادات و اطوار کو دیکھنے اور سمجھنے کی سعادت میسر آئی، بعض اسفار میں بھی حضرت کی معیت نصیب ہوئی، گھر میں بچوں کے ساتھ گھلے ملے رہتے اور شفقت کے ساتھ پیش آتے، تربیت کا انداز بھی حکیمانہ اور مشفقانہ ہوتا تھا، ڈانٹ ڈپٹ اورسخت سست کا کوئی لفظ ان کے لغت میں تھا ہی نہیں ، ان کے ہوتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے گھر میں ایک روشنی، سکنیت، طمانیت کی بارش ہورہی ہے۔ اعزہ و اقرباء کی خبرگیری، بیمار پرسی، خوشی و غم میں شرکت، ہمدردی، مہمان نوازی، فیاضی، اتباع سنت، نفاست، لطافت، احتیاط، دیانت، شرافت یہ سب اوصاف حکیم الاسلامؒ کی شخصیت سے نمایاں ہوتے تھے۔