حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
دیتے رہے، جچے تلے اور منظم انداز میں بولتے، متعینہ وقت میں جتنا پڑھانا ہوتا اتنے ہی حصہ کی عبارت بھی پڑھواتے، ادھر مضمون ختم، اُدھر گھنٹہ تمام۔ مسلم شریف کا مقدمہ جتنا دقیق اور مشکل ہے اس کو اتنا ہی سہل اور خوشگوار انداز میں سمجھاتے۔ ایمانیات اور عقائد پر ان کی درسی تقریریں بڑی تحقیقی اور معیاری سمجھی جاتی تھیں ۔ جسمانی عوارض کے باوجود تدریسی ذمہ داریوں کی پابندی ان کا ہمیشہ امتیاز رہا۔ ۱۴؍ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ؍ ۷؍فروری ۲۰۱۱ء میں مختصر علالت کے بعد حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اللھم اغفر وارحم۔ حضرت شاہ صاحبؒ نظامتِ تعلیمات اور صدرالمدرسین کے عہدے پر بھی فائز تھے، ان کی رحلت کے بعد نظامت تعلیمات اور صدارتِ تدریس کے منصب پر حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم اور نیابت تعلیمات کے منصب پر حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے فرزند جلیل مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی فائز ہوئے۔ دونوں حضرات گوناگوں علمی صلاحیتوں سے متمتع، ذہن و فراست سے بہرہ ور اور شرافتِ نفس کے پیکر۔ ان حضرات نے تدریسی خدمات کے ساتھ امور تعلیم کو احسن طریقہ سے انجام دیا۔ مولانا اسلم صاحب قاسمی کی شخصیت کئی پہلوئوں سے بے نظیر، آپ بہترین مدرس، مقبول مقرر، سنجیدہ اور صاحب طرز مصنف و ادیب، ہر قسم کی معلومات کا خزانۂ عامرہ، قدیم و جدید علوم کے ماہر، صاحب فکر، خاموش طبیعت، سادہ مزاج اور متانت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تو مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب اپنے جدِّامجد حضرت علامہ کشمیریؒ کا مثنیٰ، سحر انگیز طرز تکلم اور خطابت میں اپنے والد گرامی کا عکس۔ شرافت و مروت میں خانوادۂ شاہی کی آبرو، خوش مزاجی و خوش اخلاقی اور خوش معاملگی میں اپنی مثال آپ۔ حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ کی رحلت کے بعد مشیختِ حدیث کے منصب پر آپ کو فائز کیا گیا تو حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے مثالی طرز پران کا درسِ بخاری طلبہ میں ان کی وجہ امتیاز اور ان کی خاص پہچان بنا ہواہے۔ ۲۰۰۰ء میں جسمانی عوارض کی وجہ سے جب حضر ت مولانا خورشید عالم صاحبؒ سبکدوش ہوئے تو صاحبزادہ خطیب الاسلام مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی نیابت اہتمام کے منصب پر باضابطہ فائز ہوئے۔ اس سے پہلے دارالعلوم وقف دیوبند کی تاسیس میں مولانا موصوف اور مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب کشمیری کا جو فعال کردار رہا وہ تاریخ دارالعلوم وقف دیوبند کا ایک جلی باب ہے۔ وابستگی سے پہلے جامعہ دینیات،دیوبند جیسے عظیم الشان ادارہ کے ایک بیدار دماغ ذمہ دار رہ چکے