حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تحقیقات سے دورۂ حدیث کے طلبہ کے ساتھ دوسری جماعتوں کے طلبہ بھی محظوظ ہوتے اور واردین و صادرین بھی۔ قیامِ دارالعلوم وقف دیوبند کے بعد مرکزی جامع مسجد میں جب دورۂ حدیث میں درس دینے لگے تو خیال تھا کہ قضیۂ دارالعلوم کے زخموں سے چور حالات کی سنگینی سے رنجور اور بے سرو سامانی کے عالم میں جامع مسجد کے فرش پر پڑے ہوئے ایک شکستہ دل قافلہ کا یہ فرد اپنی آب و تاب کھوچکا ہوگا اور شاید اس عندلیب خوش نوا کی وہ نغمہ سنجی حالات کی نظر ہوچکی ہوگی جو ہزاروں کے لئے سامعہ نواز ہوتی تھی مگر دیکھنے والوں نے دیکھا، اس نامانوس جگہ پر بھی چند ستم رسیدہ غریبانِ وطن کے سامنے اسی شان و شوکت سے بولتے اور علم و حکمت کے موتی رولتے رہے۔ کبھی اپنے لب و لہجہ اور اپنے شاہانہ انداز میں تبدیلی نہیں آنے دی، غیرت و حمیت کو داغ دار نہیں ہونے دیا، نازک سے نازک مرحلوں پر اور مشکل سے مشکل احوال میں اپنا بھرم قائم رکھا، لوگ دور دراز سے ان کے درسِ بخاری میں شریک ہوتے، خود طلبہ دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد پابندی سے ان کے درس میں شریک ہوتی اور ان کے مخصوص اندازِ تدریس سے محظوظ ہوتی، اختتامِ سال پر ختم بخاری جس شان سے کراتے اور جتنا مجمع ان کے سامنے ہوتا اس کا تعلق دیکھنے سے ہوتا، ختم بخاری کا یہ مثالی انداز تاوفات قائم رہا۔ بے شک شاہ صاحبؒ حلقۂ دیوبند میں اپنی طرز کی ایک مثالی شخصیت تھے۔ ۱۹؍ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ؍۲۶؍اپریل ۲۰۰۸ء میں مختصر علالت کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ بَرَّدَ اللّٰہ مضجعہٗ۔ حضرت شاہ صاحبؒ کی وفات دارالعلوم وقف دیوبند کے لئے صحیح معنی میں ایک حادثۂ فاجعہ اور سانحۂ کبریٰ ثابت ہوئی، جس سے دارالعلوم وقف دیوبند کی نہیں ، پوری علمی دنیا میں ایک ناقابل تلافی خسارہ محسوس کیا گیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین اور مایہ ناز استاذ حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ بڑے پختہ کار، سنجیدہ اور مثالی استاذ تھے۔ دارالعلوم میں بھی ان کی مقبولیت کا شہرہ رہا۔ دارالعلوم میں شرحِ عقائد اور مسلم شریف کے اسباق ان سے متعلق رہے اور نیابتِ تعلیمات کے منصب پر بھی فائز رہے۔ قضیۂ دارالعلوم کے بعد جامع مسجد میں دارالعلوم وقف کے نیابت اہتمام کے عہدہ پر فائز ہوئے اور طویل مدت تک بڑی خوش اسلوبی اور حسنِ تدبیر سے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیا۔ پریشان ملازمین جب ان سے الجھتے تو بڑی متانت اور بردباری سے کام لیتے، یہ کارکنوں کا دکھ درد بانٹنے، حوصلہ دینے اور جمائے رکھنے میں حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ کا کردار کتنا نمایاں ہے اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ مسلم شریف کا درس بھی