حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
قرآن کریم بھی سنا، اس روز صبح ۸؍بجے حسب معمول اپنے ساتھ ناشتہ کے لئے بلایا اور ناشتہ کے بعد فرمایا کہ سفیان! آج میں تمہیں ایک ہدیہ دے رہا ہوں ، اس کے بعد اپنی الماری سے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کاپی عنایت فرمائی جس میں اہل خاندان و اہل قرابت کے متعلق نظموں کے ساتھ مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب سے متعلق دعائیہ نظم ’’میاں سفیان اور مالشِ سر‘‘ بھی درج ہے، اس کے علاوہ ’’سفر نامۂ کشمیر اور قاسمیت‘‘ کے عنوان سے طویل ترین نظمیں بھی ہیں ۔ فرمایا کہ یہ خاص تمہارے لئے ہی رکھی تھیں ، پتہ نہیں اس کے بعد موقع ملے یا نہ ملے۔ آخری لمحات میں حکیم صاحب کے آنے سے پہلے آپ آرام سے سوئے ہوئے تھے، جب حکیم صاحب آئے تو فرمایا: ’’آپ مقامی ہو کر بھی غیر مقامی ہوئے‘‘ چوں کہ حکیم صاحب کئی روز کے بعد آئے تھے، اس لئے یہ جملہ فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے حکیم صاحب کو اپنی بیماری کی کیفیت بتلائی، حکیم صاحب نے آپ کی باتیں سننے کے بعد آپ کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔حکیم الاسلامؒ نے چند سانس لئے، چند منٹ تنفس کا سلسلہ جاری رہا، اس کے بعد عالم فانی سے عالم جاودانی میں پہنچ گئے جہاں لھم مایشاؤن عند ربھم کے مرتبہ پر فائز راضیۃً مرضیۃ کے خلعت سے سرفراز اور لھم مایشاؤن فیھا و لدینا مزید کے انعامات سے مالا مال۔ انا للہ و انا الیہ راجعون نہ کسی قسم کی گھبراہٹ، نہ بے چینی، نہ تکلیف کا اظہار ع ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں آخری وقت میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم، مولانا مفتی سید احمد علی سعیدؒ، مولانا محمد اسحاق صاحبؒ مالک کتب خانہ رحیمیہ دیوبند،جناب ڈاکٹر شمیم احمد سعیدی صاحبؒ بانی جامعہ طبیہ دیوبند اور حفیدِ حکیم الاسلامؒ حافظ محمد عاصم قاسمی صاحب موجود تھے۔ ۱۷؍جولائی ۱۹۸۳ء صبح۱۱؍بج کر ۱۰؍منٹ کا واقعہ ہے، ساڑھے گیارہ بجے دن میں دیوبند کی جامع مسجد سے انتقال کا اعلان ہوا، تھوڑی ہی دیر میں ہر جگہ خبر پھیل گئی اور مقامی و غیرمقامی لوگوں کاسیلِ رواں دولت خانہ کا رخ کرنے لگا۔ آل انڈیا ریڈیو کے کئی نشریوں میں وقفہ وقفہ سے انتقال پرملال کی خبر دی جاتی رہی، جس کی وجہ سے ملک و بیرون ملک آپ کے سانحہ وفات کی اطلاع ہوتی چلی گئی، گرمی شباب پر تھی، اچانک موسم خوشگوار ہوتا چلا گیا، ہلکی پھلکی ہوا اور ٹھنڈی ہوا کا سلسلہ شروع ہوگیا، بعد نمازِ عشاء احاطۂ دارالعلوم میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ آپ کے صاحبزادے محترم خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے