حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تواضع کے پیکر اور عبودیت و تقویٰ کے مجسّم، زمین کی چادر اوڑھے محوِ خواب ہیں ۔ سیکڑوں ، ہزاروں کی تعداد میں ان بزرگوں کی علمی و روحانی ذریت صبح و شام حاضری اور دعا کو اپنے لئے سعادتِ روحانی اور سکون کا ذریعہ تصور کرتی ہے،ہر وقت نور کی بارش اوراللہ کی رحمت برستی ہے۔ فلک بوس گنبدوں ، پختہ قبروں اور حریر و دیبا ج کی ہری چادروں میں ملفوف اونچی اونچی قبروں کا کیاکام؟ حکیم الاسلامؒ اپنے جدامجد حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پہلو میں مدفون ہیں ۔ الفاظِ مزار پر نگاہ ڈالتے ہی ہر زائر و صادر کی زبان پر بے اختیار آجاتاہے: اللہ اکبر! کیا لوگ تھے، کیا علمی دبدبہ، جاہ و جلال، کیا فضل و کمال، کیا تقویٰ و طہارت کے پیکر زیر خاک ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اپنے عہد کی ایک زریں تاریخ، ایک پاکیزہ نظریہ کے بانی،ایک نسل کے مربی، مصلح، محسن، فضل و کمال کی ایک وسیع کائنات کے تاجدار اور علم و معرفت کی اقلیم کے یہ شہنشاہ، دو گز زمین کو بچھونا بنائے ہوئے محو خواب ہیں اور پس مرگ بھی خود زندہ اور زندوں کے لئے روحانی طمانیت اور قلبی سکینت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں ۔ دن کے اجالوں میں جائیے یا شب کے اندھیروں میں ، نہ وحشت، نہ دہشت، سکون ہی سکون، راحت ہی راحت،قبرستان قاسمی میں میسر آتا ہے۔ اپنے اُن جدامجد کے پہلو میں جن کے مزارِ مبارک پر پُرنم آنکھوں سے مشتِ خاک ڈالتے ہوئے نامی گرامی اور وقت کے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے بے اختیار یہ شعر پڑھا تھا ؎ مٹی میں کیا سمجھ کے چھپاتے ہو دوستو گنجینۂ علوم ہے یہ گنجِ زر نہیں اپنے دورمیں مرزا غالبؔ نے سرزمینِ دہلی کے بارے میں یہ شعر کہا تھا،جو اب یہاں پر اپنی پوری صداقتوں کے ساتھ منطبق ہورہا ہے ؎ چپہ چپہ پہ ہیں یہاں گوہرِ غلطاں تہِ خاک دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز حکیم الاسلامؒ دنیا کی تمام رعنائیوں ، برنائیوں اور عارضی رونقوں کو چھوڑ کر یہاں آسودۂ خواب ہیں ؎ وسعت جہاں کی چھوڑ جو آرام چاہئے آسودگی رکھے ہے بہت گوشۂ مزار ……v……