حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
میری زندگی کی ساخت و پرداخت میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عمر کا ایک بڑاحصہ حضرت حکیم الامتؒ کے ہاں آتے جاتے گذرا۔ مسائل دینیہ میں ان کی فقیہہ سنجی، بیدار مغزی، حکیمانہ تنقیحا ت معاشرتی معاملات میں غیر معمولی ضبط و نظم ان کا وسیع عمیق علم ان کی سینکڑوں تصانیف ان کی محبت و بابرکت اورحکیمانہ اندازِ تربیت نے زندگی کے بہت بڑے سبق سکھائے، حضرت حکیم الامتؒ کو اللہ رب العزت نے مرجع خلائق بنایا تھا۔ آج بھی ان کی تصانیف اور ان کے خلفاء کرام شریعت و طریقت کے میدان میں بڑی بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس دور میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا اہتمام کم ہی ملتا ہے۔ جتنا کہ حضرت کے یہاں تھا۔ آپ کو اپنے والد مرحوم کے انتقال کے بعد جائیداد ملی اس کے متعلق آپ نے سرکاری کاغذات و دستاویزات ترکہ سے اپنے از سرِ نو تحقیقات فرمائی اور اپنے شہر اور دوسرے شہرکے رہنے والے جس شخص کے متعلق ذرا سا بھی معلوم ہوا کہ اس کاذرا سا بھی کوئی حق اس جائیداد میں ہے پورے اہتمام کے ساتھ اس کا حق اسے پہنچایا۔ میرا تعلق حضرت حکیم الامتؒ سے عرصہ دراز تک رہا، حضرتؒ احقر سے بے حد شفقت و محبت فرماتے، میرے دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کے زمانے میں دل میں انتہائی زیادہ تکبر پیدا ہوا۔ میں نے حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ کی خدمت میں مکتوب لکھا کہ میں تو تکبر میں مبتلا ہو چکا ہوں اس کا علاج تجویز فرمایا جائے،حکیم الامت قدس سرہٗ کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح میں اجتہاد کا مرتبہ عطا فرمایا تھا مکتوب کا جواب لکھا کہ’’ اہتمام کو چھوڑ کر ابھی تھانہ بھون پہنچو‘‘ مکتوب ملتے ہی میں حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ کی خدمت میں تھانہ بھون حاضر ہوا، تو فرمایا کہ خانقاہ میں رہائش رکھو اور آپ کے ذمہ کام یہ ہے کہ خانقاہ کی مسجد میں نمازیوں کے جوتے آپ کو درست کرنے ہیں ۔ میں نے یہ کام شروع کیا ہی تھا لیکن بقول مولانا رومیؒ نفس مارا کمتر از فرعون نیست لیکن اورا عون مارا عون نیست اور تمام نمازیوں کی جوتیاں درست کرتا لیکن نفس نے یہ سکھا یا کہ جو جوتیاں نئی ہوتیں ان کو درست کر دیتا تھا اور پرانی جوتیاں درست نہ کرتا تھا۔ حضرت حکیم الامتؒ نے ایک مرتبہ دیکھ لیا تو فرمایا کہ: ’’ محمد طیب کیا وجہ ہے، پرانی جوتیاں بھی تو جوتیاں ہیں ان کو کیوں درست نہیں کرتے‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ: ’’ تکبر اتنا بڑا مرض ہے کہ یہ اہل اللہ سے بھی بڑی مشکل سے جاتا ہے اور سب سے آخر میں یہ ختم ہوتا ہے۔ اس نے کئی آدمیوں کو ذلیل کیا ہے اور شیطان کو لعنت کے قید خانہ میں گرفتار کیا ہے‘‘