حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفیق کار قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تھے، ان اکابر کے جانشین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اسلام کی سربلندی، وطن عزیز کی آزادی اور قومی یکجہتی کے اولین داعی تھے۔ یہ بزرگ جہاں علم و فضل کا بلند نشان، دینی تعلیم و تربیت کا روشن مینار اور حقیقی معنی میں خداپرستی کا مخزن تھے وہیں سچے محب وطن اور انسانی معاشرے کے زبردست خیرخواہ بھی تھے اور کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت پر ان کے گراں قدر احسانات ہیں ۔ جناب والا! یہ دارالعلوم جس کے احاطہ میں اس وقت جناب والا رونق افروز ہیں آج ان ہی اکابر کی یادگار اور ان ہی کے نقشِ قدم پر گامزن ہے، اس کے سامنے قدیم روحانی ورثہ ہے اور اسے نئے دور کے تقاضوں کا احساس ہے۔ ۱۸۵۷ء کا انقلاب صرف ہندوستان کا سیاسی انقلاب نہ تھا بلکہ اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا بھی انقلاب تھا۔ برطانوی تعلیمی پالیسی کے تحت قدیم اسلامی مدارس رو بزوال تھے، قدیم تہذیب موت کے کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی اور قدیم علوم کی حامل بہت سی شخصیتیں فنا کے گھاٹ اتاردی گئی تھیں ، یا جلا وطن ہوچکی تھیں ، اندرین حالات ہندوستان میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے بقاء کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ ایک ایسی درسگاہ قائم کی جائے جو اپنی مخصوص تعلیم و تربیت کے لحاظ سے اسلامی روح کو بھی مضمحل نہ ہونے دے اور وقت کے لحاظ سے گرتی ہوئی قوم کو بھی سنبھالے، قوم کے نبض شناسوں نے انہی مقاصد کے لئے اس درسگاہ کی بنیاد رکھی، حکومت سے امداد لینے کے بجائے محض خدا پر بھروسہ اور عوام کے چندوں پر اس ادارے کو قائم کیا، جس میں تعلیم مفت اور آزاد رکھی گئی، طلبہ سے فیس لینے کے بجائے ان کے لئے ماہانہ وظائف جاری کئے گئے تاکہ اس تعلیم سے غریب و امیر سب یکساں طور پر منتفع ہوں اور کسی بھی غریب و نادار کے لئے تعلیم کا دروازہ بند نہ رہے، یہ تجزیہ نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوا اور آگے چل کر بہت سے اداروں کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اس تعلیمی لائن سے دارالعلوم نے سیاسی غلامی کی فضا میں ذہنی آزادی کو اپنے طلبہ اور متوسلوں میں برقرار رکھا۔ جناب محترم! دارالعلوم دیوبند میں اس وقت ہند و بیرون ہند کے تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبہ دینی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، چالیس سے اوپر اساتذہ ان کی تعلیم پر مامور ہیں اور پونے دو سو کے قریب افراد کا عملہ دفتری خدمات انجام دے رہا ہے۔ دارالعلوم کا سالانہ بجٹ ساتھ لاکھ روپے کے قریب ہے جو حیرت ناک طریقہ پر عوامی چندوں سے