حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
(۳)تعلیم انگریزی ہو یا عربی، دنیاوی ہو یا دینی، مادی زبان میں دی جائے، دارالعلوم نے اس اصول کو نوّے سال پہلے تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا اور کامیاب ہوا اور نہ صرف یہ کہ اس تجربے کی بدولت اردو بولنے والے طلباء کی بہت سی مشکلیں آسان ہوگئیں بلکہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اردو براعظم ایشیاء اور افریقہ وغیرہ کے ان تمام ممالک میں پہنچ گئی جو اس دارالعلوم سے علمی اور روحانی رابطہ رکھتے ہیں ۔ تیسرے سال کی بات ہے جب ہمارے ملک کے وزیر اعظم پنڈت نہرو روس کا دورہ کرتے ہوئے تاشقند پہنچے تو وہاں اُن کو سپاس نامہ اردو میں پیش کیا گیا اور اردو میں ہی پنڈت جی نے اس کا جواب دیا، یہ سپاس نامہ پیش کرنے والے اسی دارالعلوم کے فاضل ایک تاجیک عالم تھے، غالباً اسی سال چینی حجاج کا وفد ہندوستان آیا، اس کا خیر مقدم مسلمانوں سے زیادہ آپ کی وسیع المشرب حکومت نے کیا، ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستانی زبان میں ان کا تعارف کرانے والے اسی وفد کے ایک رکن مولانا حامد احمد چینی تھے جو بیس سال پہلے اسی دارالعلوم میں تعلیم پارہے تھے۔ (۴) تعلیم کو آزاد ہونا چاہئے،یہ ہے وہ اصول جس کی بنا پر دارالعلوم ایک آزاد تعلیمی ادارے کی حیثیت سے کام کر ہا ہے، یہ ادارہ دارالعلوم اس وقت بھی آزاد تھا جب ملک غلام تھا، ملک کی آزادی کے لئے اس دارالعلوم کی تاریخی خدمات اسی عظیم اصول کا نتیجہ ہیں ، جس پر دنیا کے تعلیمی ماہرین آج پہنچ رہے ہیں ۔ (۵)استاذ کو شاگرد سے بہت قریب اور اس کے دکھ درد کا شریک رہنا چاہئے، تاکہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوتی رہے اور طلباء کی شخصیت اس سانچے میں ڈھل سکے جو اس تعلیم کا مقصد ہو، یہ ہے دارالعلوم کا وہ پرانا اصول جس کی برتری، بہتری اور کامیابی کے اعتراف پر آج کے ماہرین تعلیم جدید مجبور ہورہے ہیں ۔ (۵) تعلیم بے قیمت اور فری ہونی چاہئے، غالباً یہ دارالعلوم دنیا کی واحد درسگاہ ہے جو اکیانوے سال سے تمام طلباء کو فری تعلیم دے رہا ہے اور ان کے جملہ اخراجات حتی کہ کورس کی کتابوں کا خرچہ بھی برداشت کر رہا ہے۔ (۷) سادگی، صفائی، جفاکشی اور محنت پسندی یہ وہ اصول ہیں جو اس دارالعلوم کے بزرگوں کے خاص شعار ہیں ، یہاں اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا عیب نہیں بلکہ ایک تہذیبی خوبی ہے، اسی اصول کی برکت سے کم سے کم اخراجات کے نتیجے میں بہتر سے بہتر علماء قومی اور ملی خدمت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے چکے اور دے رہے ہیں ۔ (۸) علم خود ایک مقصد ہے، اس کو اگر واسطہ بنایا جاسکتا ہے تو صرف تکمیل روح اور تعمیر انسانیت کا کسی