حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
میں قائم ہوا۔ پھر تحریک خلافت کے اشتراک عمل نے اسے مضبوط کیا اور بالآخر جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم سے پر اس نے ایک مضبوط، رسمی صورت بھی اختیار کرلی، جس کی بدولت آج تک سے قومی اوراق باہم مربوط ہیں ۔ پھر یہ تعلق سیاسی حد تک ہی نہیں رہا، بلکہ ہمیں صمیمانہ اعتراف ہے کہ اُس نے وقتاً فوقتاً مختلف اندازوں سے دارالعلوم کی اعانتوں اور خدمتوں کی صورت بھی اختیار کی ہے۔ صوبۂ یوپی کے علمی نصاب کی تدوین و ترتیب کے سلسلہ میں جناب والا نے ذمہ داران دارالعلوم کو شرکت اور خدمت کا موقع عنایت فرمایا۔ ریاست حیدرآباد دکن کی امداد کی بقاء کے سلسلہ میں دارالعلوم کی پوری اعانت و ہمدردی فرمائی۔ پاکستان کی طرف سے آنے والے طلبہ کے لئے پرمٹ کی سہولت دئیے جانے کے بارے میں دارالعلوم کی تحریک کو کامیاب بنایا وغیرہ۔ ان قدیم و جدید تعلقات کی بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مقتدر مہمان اپنوں میں آئے ہیں اور اپنے گھر آئے ہیں ؎ بیا بیا و فرود کہ خانہ خانۂ تست۔ اور اسی بنا پر ہم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مستقبل میں جناب والا دارالعلوم کو اپنا اور خالص اپنا سمجھیں اور اسی اتحاد بینی کے سلسلہ میں ذات گرامی کی آمد و رفت ضابطوں سے بھی بے نیاز ہوجائے، ان ہی مراسم اخلاص کے ماتحت ہم امید کرتے ہیں کہ ماضی کی ان اخلاقی اعانتوں کی طرح جناب والا مستقبل میں بھی اس مرکز کی بقاء و ترقی سے مخصوص دلچسپی لیتے رہیں گے۔ آج متعدد مدرسین دارالعلوم پاکستان میں رُکے ہوئے ہیں جن کی افادیت محدود ہو کر رہ گئی ہے، ان کے آنے اور سال بہ سال تعطیلات میں وطن جانے کا مسئلہ گورنمنٹ کی اخلاقی اعانت کا محتاج ہے۔ دارالعلوم کو حکومت کی تسلیم کردہ یونیورسٹی بنانے اور حیثیات و معاملات میں اُس کے ساتھ مسلمہ یونیورسٹیوں جیسا برتائو کرنے کا مسئلہ اٹھاہوا ہے۔ دارالعلوم کی سند فراغ کو بی اے، ایم اے کی ڈگریوں کے برابر سمجھے جانے، منظور کرنے اور متعلقہ حقوق عطا کئے جانے کا مسئلہ بھی حکومت میں پیش شدہ ہے۔ دارالعلوم کے شعبہ طب کو خصوصیت سے منظور کئے جانے اور اُس سے فارغ شدہ مستند اطباء کو سرکاری طور پر مجاز مطب کئے جانے کا مسئلہ بھی اٹھا ہوا ہے اور چل رہا ہے۔ دارالعلوم میں ایک خیراتی اسپتال کھولے جانے، مفت علاج کئے جانے کے بارے میں گورنمنٹ کی موجودہ اعانتوں کا مطالبہ مسلموں اور کاغذات میں آیا ہوا ہے۔ اگر یہ تمام مسائل حل ہوجائیں تو دارالعلوم کی افادیت میں ایک بیش قیت اضافہ ہوجائے گا یہ اور اسی قسم کے اور مسائل جو آئندہ پیش آئیں جہاں گورنمنٹ کی اخلاقی اعانت کے محتاج ہیں وہیں بحیثیت ایک تعلیم گاہ کے مسائل ہونے کے جناب والا