حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ان ہی مراسم کے واسطے سے ۱۳۵۸ھ میں اس نیاز مندی کی افغانستان حاضری کے موقع پر والا حضرت سردار محمد ہاشم خاں مرحوم نے راقم الحروف کی درخواست پر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی ایک محدود تعداد کو مغربی زبانوں کی تعلیم کی سہولتیں دینا منظور فرمایا تھا، لیکن یورپ کی جنگ عظیم اور عالمی پراگندگی نے اس منصوبے کو عمل سے ہم کنار نہ ہونے دیا۔ کاش آج جب کہ وہ دور ختم ہوچکا ہے اور آزاد ہندوستان آزاد افغانستان سے دوستی اور خیرسگالی کا مستحکم رشتہ قائم کئے ہوئے یہ منصوبہ جامۂ عمل پہن سکتا ہے اور اس دارالعلوم مرکزی اور افغانستان کے مراکز علمی کے درمیان پھر یہ عرفانی ربط تجدید پذیر ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت معظم! ہم غرباء ذات شاہانۂ ہمایونی کے شایانِ شان مدارات سے تہی دامن ہیں ۔ جس پر ہم سوائے اعتراف تقصیر اور معافی طلبی کے اور کیا عرض کر سکتے ہیں ؟ اگر یہی تہی دستی بارگاہِ خسروی میں شرف قبول حاصل کرے تو زہے عزت و زہے نصیب۔ نیز ہم اعلیٰ حضرت معظم کے اس فیاضانہ کرم پر شکریۂ مزید پیش کرتے ہیں کہ ہمیں سپاس نامہ پیش کرنے کا موقع مرحمت فرمایا گیا۔ اعزاللّٰہ المیر و ادام دولتہٗ و شوکتہٗ و نفع بہ المسلمین اجمعین۔ آمین ہم نے نیازمندانہ جرأت کے ساتھ ذات شاہانۂ ہمایونی کابہت کافی وقت لیا اور اب ان کلمات پر اس عرض عقیدت کو ختم کرتے ہیں کہ ’’اعلیٰ حضرت ہمایونی کا ورود مسعود دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں ایک تابناک باب اور بیش قیمت ا ضافہ ہے جس پر دارالعلوم کو ہمیشہ ہمیشہ فخر و ناز رہے گا اور ذاتِ شاہانہ کی یہ تشریف ارزانی اس معہد دینی کے خدام کے لئے دواماً فال نیک رہے گی۔ زندہ باد اعلیٰ حضرت ہمایونی بادشاہ افغانستان پائندہ باد دولت مستقلہ خداداد افغانستان۔ محمد طیب مدیر عمومی دارالعلوم دیوبند و جمیع اراکین مجلس شوریٰ ۵؍شعبا ن ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۵؍فروری ۱۹۵۸ء یہ سپاس نامہ ایک خوبصورت صندوقچی میں رکھ کر بذریعہ ایک ٹرے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا، ٹرے پر دارالعلوم کی عظیم الشان عمارت دارالحدیث کا رنگین مرقع بنایا ہوا تھا۔ ……v……